ہم خود ساختہ قرنطینہ سے کب نجات حاصل کریں گے؟
انسان کی آنکھیں صدیوں سے سورج طلوع ہونے سے کھلتی رہی ہیں اور سورج غروب ہونے کے بعد وہی تھکی ہاری آنکھیں نیند کی آغوش میں آتے ہی بند ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ معمول کے دنوں کا قصہ ہے، جب صبح سب کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے، وہی چہل پہل، وہی معمولات، وہی بھاگ دوڑ اور وہی ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کا مقابلہ۔
مگر کسی صبح اٹھتے ہی گھر سے گزرتی سڑک خاموش ہوجائے جو رات گئے تک گاڑیوں کے شور میں ڈوبی ہو، جس کے فٹ پاتھ سے قدموں کی آواز اچانک سے کہیں گم ہوجائے، اسکول کے بھاری بھرکم بستے اپنے کاندھوں پر لادے بچے آپ کو نظر نہ آئیں، دکانوں کے شٹر بند ہوں اور وہ جانے پہچانے چہرے جو روزانہ ہی نظر آتے تھے، اچانک سے آپ کو کہیں دکھائی نہ دیں تو من کی ویرانی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
کچھ ایسا ہی ماحول آج کل حیدرآباد شہر سمیت پورے ملک بلکہ پوری دنیا کا ہے۔ وبائیں جہاں سیاسی، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں وہیں انسانی نفسیات کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
آج کے زمانے کا سچ یہ ہے کہ ہم وبا کے دنوں میں جی رہے ہیں، یہ دنیا میں آنے والی پہلی وبا تو نہیں ہے مگر یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایسی وبا ضرور ہے جس میں ایک انسان کی دوسرے انسان سے دُوری لازمی بن گئی۔
حالیہ وبا کے بعد ہماری روزمرہ کی زندگی میں جو الفاظ رائج ہوئے ہیں، ان میں آئسولیشن، قرنطینہ، سماجی فاصلہ، لاک ڈاؤن، کووڈ- 19 اور سینیٹائزر جیسے الفاظ شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: ’اگر تم نے کورونا کے مریضوں کا علاج کیا تو گھر آنے کی ضرورت نہیں‘
کورونا جیسے خطرناک مرض میں مبتلا مریض کو تنہائی میں رکھا جاتا ہے تاکہ یہ مرض کسی اور صحتمند انسان میں منتقل نہ ہوسکے، اور اس عمل کو قرنطینہ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اب دنیا بھر میں قرنطینہ مراکز قائم ہوچکے ہیں، اور اکثر افراد اس قرنطینہ سے گھبرا رہے ہیں کیونکہ وہ اس طرح کی تنہائی کو قید سمجھتے ہیں۔
لیکن یہ کتنا عجیب ہے کورونا کی وبا کے بعد تو انسان قرنطینہ میں رہنا پسند نہیں کررہا مگر اس وبا سے پہلے وہ خود اسی قرنطینہ سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
وہ گھر میں ہوتا ہے تو موبائل فون کے ذریعے قرنطینہ کا شکار رہتا ہے، اگر باہر کہیں دوستوں کے ہمراہ ہوتا ہے تب بھی موبائل پر فیس بک یا ٹوئٹر استعمال کرتے ہوئے خود کو قرنطینہ میں دھکیل کر آس پاس کے ماحول سے بے خبر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے رویوں میں بھی قرنطینہ اختیار کرلیتا ہے۔ گھر میں اس کی لاتعلقی اور بیگانگی تک، یہ سب سماجی کورنٹائن ہی کی صورتیں ہیں۔
حالیہ دنوں میں جب کسی مریض کو قیدِ تنہائی کی ضرورت ہے تو وہ خود کو ہجوم میں بہتر پاتا ہے، حالانکہ اسے معلوم ہے کہ وہ دیگر لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کرسکتا ہے، مگر نارمل حالات میں وہ خود کو تنہا کرنے میں دیر نہیں کرتا۔
چند برس قبل بولی وڈ اداکار جیکی شروف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب وہ غربت کی زندگی گزار رہے تھے تو تمام گھر کے افراد ایک بڑے سے کمرے میں سوتے تھے، کیونکہ گھر میں ایک ہی کمرہ تھا۔ اگر وہیں کسی کو کھانسی یا کوئی تکلیف ہوتی تھی تو میری والدہ کو اس کا فوراً پتا چل جاتا تھا اور وہ سب کی دیکھ بھال کرتی تھیں، مگر جب حالات بہتر ہوئے اور انہوں نے ایک گھر بنوایا جہاں کمرے زیادہ ہوگئے تو ہر ایک فرد اپنے اپنے کمرے میں رہنے لگا، اور امّی کا کمرہ بھی الگ تھا۔ ایک دن امّی کمرے میں خاموشی سے وفات پاگئیں اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی مگر ہم سب افراد ایک کمرے میں ہوتے تو شاید امّی کی طبعیت کی خرابی کا پتا چل جاتا۔ ان کی ایک کمرے میں ساتھ رہنے والی بات دراصل رشتوں کو جوڑے رکھنے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
آج زمانے کی رفتار بہت تیز ہے، ایک ہی کمرے میں بیٹھے گھر کے 4 افراد موبائل ڈیوائس میں مصروف رہتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ موبائل استعمال کرنے سے سماجی رابطے زیادہ پائیدار ہوتے ہیں، مگر سماجی رابطے اور رشتے تب بھی تھے جب موبائل فون نہیں تھا بلکہ تب زیادہ مضبوط تھے۔ اس لحاظ سے یہ موبائل قرنطینہ زیادہ خطرناک ہے۔
مزید پڑھیے: ’مجھے نوکری سے نکالا تو میں نے اپنا کام شروع کردیا اور تنخواہ جتنا کما بھی لیا‘
لاک ڈاؤن کے دوران کسی کام کے لیے گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ہمیں ہر دکان اور ریڑھی کے آگے سفید رنگ کے گول دائرے نظر آرہے ہیں، ہم آج انہی دائروں میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر معاشرے میں تفریق کا سبب بننے والے جو دائرے ہم نے طبقات، ذات پات، لسانی، نسلی اور سیاسی بنیادوں پر بنا رکھے ہیں، ان کا خاتمہ کب ہوگا؟ کیا ہم ان نظر نہ آنے والے دائروں کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟ کل دکان کے باہر کھنچے ہوئے دائرے مٹ جائیں گے مگر کیا وہ دائرے بھی مٹ پائیں گے جو ہمیں ایک دوسرے سے دُور رکھتے ہیں؟
اس وبا کے پیش نظر ان دنوں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھیں، یہ وہ وقت ہے جب حقیقتاً سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت بھی ہے، لیکن یہ سب وقتی طور پر بہتر لگتا ہے۔ وبائیں انسان ذات کے لیے محض مصائب نہیں لاتی ہیں بلکہ وہ نفسیاتی اور سماجی رویوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ آج ہم گھروں کی چار دیواری میں قید ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم اپنے رشتوں کی ان پریشانیوں کو سمجھنے کے قابل ہوسکتے ہیں جو خود ساختہ قرنطینہ کہ وجہ سے جنم لیتے ہیں۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جمیل جونیجو کا کہنا ہے کہ 'نفسیاتی طور پر انسانی شخصیت مجموعی طور پر Ego اور ID سے ہی تشکیل پاتی ہے۔ انسانی تنہانی اس کی شخصیت کا ایک عنصر ہے، جس کی وجہ سے وہ سماجی سرگرمیوں سے خود کو دُور رکھتا ہے، یہ سب اس کی نفسیات کا حصہ ہے'۔
ڈاکٹر قاسم جمال چاچڑ سر کاؤسجی انسٹی ٹیوٹ آف سائیکائٹری سے وابستہ ماہرِ نفیسات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اب حالیہ وبا میں کافی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ ایک بیماری ہے مگر چند کا خیال ہے کہ یہ ایک ڈراما ہے۔ میں جن مریضوں کا علاج کر رہا ہوں وہ کنفیوژ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس وقت لوگ نفیساتی اعتبار سے ماہرینِ نفسیات کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں مگر کورونا کے بعد انہیں یہ محسوس ہوگا کہ انہیں اب نفسیاتی ماہرین کے پاس جانا چاہیے۔ اس وقت لوگ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کو اہم سجھتے ہیں کیونکہ انہیں پتا ہے کہ انہیں یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ وبا گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے اذہان پر پوسٹ ٹراما اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) مابعد صدماتی تناؤ کا اثر کافی وقت تک قائم رہے گا، لوگ دباؤ کو محسوس کریں گے اور انہیں آپس میں گھلنے ملنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ اس وبا نے ہمیں یہ سبق بھی سکھایا ہے کہ انسانی صحت پر زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کرنا اور روزمرہ کی زندگی میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھنا کیوں ضروری ہے'۔
کورونا نہ تو روئے زمین پر آنے والی پہلی وبا ہے اور نہ ہی آخری، ایک روز اس وبا کا خاتمہ بھی ہوجائے گا اور حالات معمول پر آجائیں گے۔ لیکن آج جو مریض یا عام آدمی قرنطینہ سے بھاگ کر لوگوں کے ہجوم یا اپنے گھر کے افراد کی جانب جانا چاہ رہا ہے، کیا کل وہ ٹھیک ہونے کے بعد خود ساختہ قرنطینہ کو خیرباد کہے گا اور پھر سے ان رشتوں کو اہمیت دے گا جنہیں وہ فراموش کرچکا ہے؟ کیا ہم اس آئسولیشن کو ترک کرپائیں گے جس کی وجہ سے ایک ہی گھر میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کے لیے اجبنی بنے ہوئے ہیں؟
مزید پڑھیے: پاکستان میں پھنسے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو واپس بھیجنا زیادہ ضروری کیوں؟
شاید ایسا نہ ہوپائے اور ہم پھر سے اپنی اپنی قرنطینہ میں پناہ ڈھونڈیں، جس میں ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ درحقیقت یہ لاتعلقی معاشرے، دوستوں، گھر کے افراد اور عزیز و اقارب سے فرار ہے۔
سندھی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ ’مانہو مانہو جو علاج آہے‘ یعنی انسان کو انسان سے راحت ملتی ہے۔ ہوسکتا ہے اس عارضی قرنطینہ میں انسان اکیلا رہ کر وقت گزار لے، لیکن کیا ہم اس قرنطینہ کو خود سے الگ کرپائیں گے جو ہم نے برسوں سے خود پر مسلط کی ہوئی ہے، جو ہمیں ہجوم، گھر اور معاشرے میں تنہا رکھتی ہے۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس akhterhafez@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔