’اب تو کشمیریوں کی لاشیں بھی چُرالی جاتی ہیں‘
بربریت کی علامت تصور کیے جانے والے نازی اپنے اندر انتہا درجے کی نفرت، خوف اور جنونیت رکھتے تھے۔ یہودیوں کی نسل کشی میں ان تینوں نے ایندھن کا کام کیا، پھر ٹائفس نامی ایک ایسا وبائی مرض بھی ہے جو اکثر جنگ کا پیچھا کررہا ہوتا ہے۔ نازیوں کو اپنا کام کرنے میں اس مرض نے کافی مدد کی کیونکہ انہوں نے ٹائفس کی احتیاطی تدابیر کی آڑ میں بڑی تعداد میں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
ایک دانشور کے مطابق، 'یہودیوں کو مرض پھیلانے کی وجہ قرار دے دیا گیا اور صحت عامہ کو ممکنہ خطرات سے بچانے کا بہانہ بناکر گھیٹو بستیاں قائم کردی گئیں'۔ ٹائفس نے قرنطینہ، جراثیم کشی اور'ڈیلاؤزنگ باتھ' (جو دراصل گیس چیمبروں کے لیے استعمال ہونے والا کوڈ تھا) کی راہ ہموار کی اور آخر میں 'متاثرین کو مرض زدہ ماحول میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا'۔
ایک عرصے سے یورپی فاشزم سے متاثر ہندوتوا نظریے کے پیروکار آج اسی طرز کی فاشزم کے ہتھکنڈوں پر من و عن عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کا جینا اجیرن کردیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں ہونے والے قتلِ عام کے بعد اب یہ ریاست 'کورونا جہاد' کے شور کے ساتھ ظلم کے سلسلے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
رواں سال کی ابتدا میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا تھا اور اب ان پر کرکٹ کے بلوں سے حملہ کیا جارہا ہے اور 'وائرس پھیلانے والے' قرار دے کر ان کے علاقوں سے بھگایا جارہا ہے۔
ایک طرف اتر پردیش پر حکمرانی کرنے والے جنونی سادھو یوگی ادتیہ ناتھ قومی سلامتی ایکٹ کی مدد سے تبلیغی جماعت کے ارکان پر وار کررہے ہیں تو دوسری طرف انہی کی طرح زرد رنگ میں ملبوس راج ٹھاکرے ان سے دو قدم آگے نکل گئے اور کہتے ہیں کہ، 'ان لوگوں پر گولیاں چلا کر مار دو۔'