جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ، کیا؟ کیوں؟ کیسے؟
جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ، کیا؟ کیوں؟ کیسے؟
پاکستان سے محبت کرنے والے ہر شخص کے لیے 'حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ' پڑھنا کسی صدمے سے کم نہیں۔ بالکل اسی طرح کرکٹ کو چاہنے والے کسی بھی فین کے لیے 'جسٹس قیوم کمیشن' رپورٹ کا مطالعہ کرنا بڑے دِل گردے کا کام ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے کرکٹ کے میدان تو ویران پڑے ہیں، لیکن اس فراغت میں گڑھے مُردے اکھاڑنے کا سلسلہ ضرور شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں میں سلیم ملک کا معاملہ منظرِ عام پر آنے کے بعد جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ کا ذکر بار بار سامنے آیا۔
150 صفحات کی یہ دستاویز پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کے لیے اٹھایا گیا پہلا قدم تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کمیشن نے فیصلہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں پر کافی ہلکا ہاتھ رکھا۔ لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ درست سمت میں اٹھایا گیا ایک اہم قدم تھا اور اگر اس رپورٹ کی سفارشات پر پوری طرح عمل کیا جاتا اور اس کی روشنی میں مستقبل کے لیے قانون سازی کرلی جاتی تو شاید 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل جیسا واقعہ پیش ہی نہ آتا۔
پسِ منظر
90ء کی دہائی کرکٹ کے عروج کا زمانہ تھی۔ جہاں یہ کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں کے چھا جانے کا دور تھا وہیں رنگین ٹیلی وژن عام ہوچکے تھے اور تقریباً سارے ہی کرکٹ میچ براہِ راست نشر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ پھر 1992ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی کامیابی نے تو گویا مہر ہی ثبت کردی کہ اب پاکستان کا سب سے مقبول کھیل کرکٹ ہوگا۔
پاکستان اور بیرونِ ملک بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ کرکٹ میں پیسے کی ریل پیل بھی بہت زیادہ ہوگئی اور یہیں سے فکسنگ نے بھی پنجے گاڑنے شروع کردیے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ معاملہ سنگین ہوتا گیا یہاں تک کہ پاکستان کے چند بہترین کھلاڑیوں پر فکسنگ کے الزامات لگے اور کچھ پر تاحیات پابندیاں بھی لگ گئیں۔
چند کھلاڑیوں نے زندگی بھر کی بدنامی سمیٹی اور کچھ ہمیشہ کے لیے مشکوک قرار پائے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی، بھارت، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا میں بھی تحقیقات ہوئیں اور کئی بڑے نام زد میں آئے۔
ویسے تو پاکستان کرکٹ میں فکسنگ کوئی انہونی بات نہیں تھی، بلکہ خود کمیشن کی رپورٹ میں ذکر موجود ہے کہ 1979-80ء میں آصف اقبال پاکستان کے کپتان تھے، جن پر ایک میچ کے دوران ٹاس پر شرط لگانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ بھارتی کپتان گنڈاپا وشوَناتھ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا کہ جب وہ پاکستانی کپتان کے ساتھ ٹاس کے لیے میدان میں اترے تو ٹاس مکمل ہونے سے پہلے ہی انہوں نے مجھے کہا ’مبارک ہو‘۔
پاکستان میں فکسنگ کی خبریں تب اپنے عروج پر پہنچیں، جب سلیم ملک کو کپتان بنایا گیا۔ ان کی زیرِ قیادت تمام ہی دورے متنازع اور مشکوک تھے۔ 1994ء کے دورۂ نیوزی لینڈ سے لے کر ایک سال بعد دورۂ زمبابوے تک۔
ابتدائی دھماکے
تب دو whistleblowers منظرِ عام پر آئے، ایک باسط علی اور دوسرے راشد لطیف، جنہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر پسِ پردہ چلنے والے دھندوں کو بے نقاب کیا۔ ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیف ایگزیکٹو ماجد خان نے عدالتی انکوائری کی تجویز دی۔ جس پر 1998ء میں ایک کمیشن ترتیب دیا گیا جس میں جسٹس ملک محمد قیوم کو یہ اہم ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے میچ فکسنگ کی تحقیقات کریں، ملوث کھلاڑیوں کی شناخت کرتے ہوئے ان کو سزائیں دیں اور مستقبل کے لیے تجاویز پیش کریں۔
تب میچ فکسنگ کے حوالے سے نہ کوئی قانون موجود تھا، نہ ہی ایسے قواعد و ضوابط تھے کہ جن کو بنیاد بنا کر کمیشن اپنے کام کا آغاز کرتا۔ لیکن کمیشن کی رائے پھر بھی تھی کہ میچ فکسنگ کی سزا تاحیات پابندی ہی ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے ٹھوس ثبوت ہونے چاہئیں۔ کچے پکّے ثبوتوں کی بنیاد پر کسی کھلاڑی کے کیریئر کو تباہ نہیں کیا جاسکتا۔
تحقیقات کا آغاز
کمیشن نے تحقیقات کا آغاز کیا تو 2 نام سب سے زیادہ گردش میں آئے، ایک سلیم ملک اور دوسرے وسیم اکرم جبکہ چند ایسے میچ بھی سامنے آئے کہ جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ میچ فکس تھے۔
پہلا 16 مارچ 1994ء کو نیوزی لینڈ کے خلاف کرائسٹ چرچ میں ہونے والا ایک ون ڈے اور دوسرا 7 ستمبر 1994ء کو سری لنکا میں ہونے والی سنگر ورلڈ سیریز کا دوسرا میچ، جو پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی میچ پر شکوک ظاہر کیے گئے جیسا کہ ورلڈ کپ 1996ء میں بھارت کے خلاف کھیلا گیا کوارٹر فائنل اور 12 اپریل 1999ء کو کوکا کولا کپ میں انگلینڈ کے خلاف شارجہ میں کھیلا جانے والا ایک مقابلہ۔ لیکن جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھتی گئیں کئی دوسرے میچوں پر بھی انگلیاں اٹھنے لگیں۔
اور پنڈورا باکس کھل گیا!
اب پنڈورا باکس کھل چکا تھا۔ ایسے ایسے الزامات سامنے آنے لگے کہ الامان الحفیظ! سب سے پہلے کمیشن کے روبرو پیش ہوئے سرفراز نواز جن کے مطابق ورلڈ کپ 1987ء کا پاک-آسٹریلیا سیمی فائنل بھی فکس تھا اور 1994ء میں سری لنکا کے خلاف کھیلا گیا ایک میچ بھی کہ جس میں 79 رنز تک پاکستان کا صرف ایک کھلاڑی آؤٹ تھا اور کچھ ہی دیر میں پوری ٹیم 149 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
سرفراز نواز کے بقول اس میچ کے لیے سلیم ملک کو سٹے بازوں نے 40 لاکھ روپے دیے تھے۔ ان کے الفاظ میں سلیم ملک اور وسیم اکرم دونوں کے بھائی سٹے باز تھے اور اعجاز احمد اور سلیم ملک مقامی میچوں پر بھی جوا کھیلتے تھے۔ یعنی سرفراز نواز کے بیانات آج سے 20 سال پہلے بھی ایسے ہی ہوتے تھے کہ الزامات بڑے بڑے لیکن ثبوت ندارد!
یہی حال چند صحافیوں کا بھی تھا کہ جو کمیشن کے روبرو پیش ہوئے بلکہ ایک معروف صحافی نے یہ تک کہا کہ ٹیم میں صرف راشد لطیف، اظہر محمود، شعیب اختر اور عامر سہیل ہی 'مسٹر کلین' ہیں، باقی سب کا دامن داغدار ہے۔
سلیکشن کمیٹی کے سابق چیئرمین جاوید برکی کا کہنا تھا کہ انہیں یقین تھا کہ ٹیم میں گڑبڑ چل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جاتے ہوئے تجویز کیا تھا کہ سلیم ملک کو اب کھیلنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے اور وسیم اکرم کو بھی متنبہ کرنا چاہیے۔
سابق کوچ ہارون رشید کے خیال میں کچھ میچ واقعی فکس تھے، جیسا کہ ایشیا کپ 1997ء میں ہونے والا پاک-سری لنکا میچ، جو پاکستان 15 رنز سے ہارا تھا۔ اسی سال بھارت کے خلاف ایک ون ڈے میں ثقلین مشتاق نے آخری اوور میں 17 رنز دیے تھے۔ ان کے خیال میں ثقلین کے پائے کے کسی کھلاڑی سے ایسی کارکردگی کی توقع نہیں تھی اور ان کے خیال میں یہ میچ بھی فکس تھا۔
ثقلین نے بعد میں ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ انہیں نئے گیند سے باؤلنگ کروانا پڑی، جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ بہرحال، ہارون رشید یہ تک کہتے ہیں کہ اسی سال یعنی 1997ء میں پاک-جنوبی افریقہ فیصل آباد ٹیسٹ بھی فکس تھا کہ جس میں پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 146رنز کا ہدف ملا تھا، لیکن پوری ٹیم صرف 92 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ ان کے خیال میں بھی فکسنگ کے ذمہ دار سلیم ملک، وسیم اکرم اور اعجاز احمد تھے۔ لیکن یہ تمام باتیں محض شبہات اور اندازے تھے، کمیشن ٹھوس ثبوت کا اب بھی منتظر تھا۔
ایک اور سابق کوچ انتخاب عالم نے بتایا کہ 1994ء میں شارجہ فائنل سے پہلے انہیں فون کالز موصول ہوئیں کہ میچ فکس ہے۔ اس موقع پر انہوں نے سب کھلاڑیوں کو اکٹھا کیا اور ان سے قرآن مجید پر حلف لیا۔ انتخاب عالم کا بھی کہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والا پانچواں ون ڈے فکس تھا۔ انہوں نے ان افواہوں کی بھی تصدیق کی کہ جنوبی افریقہ میں منڈیلا کپ کے 2 فائنل میچ بھی پاکستان جان بوجھ کر ہارا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک نامعلوم کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ 8 کھلاڑی سلیم ملک، وسیم اکرم، انضمام الحق، باسط علی، اعجاز احمد، مشتاق احمد، معین خان اور وقار یونس سٹے بازوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ انتخاب عالم کا کہنا تھا کہ میچ فکس کرنے کے لیے کم از کم 5، 6 کھلاڑیوں کا متحد ہونا ضروری ہے۔ جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے خیال میں کون کون سے کھلاڑی ان حرکتوں میں ملوث نہیں؟ تو انہوں نے رمیز راجہ، عاقب جاوید اور عامر سہیل کے نام لیے۔
سابق کپتان عمران خان بھی کمیشن کے روبرو پیش ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ میں میچ فکسنگ تو ہو رہی ہے لیکن عطاء الرحمٰن کے سوا انہیں کسی کھلاڑی کے حوالے سے کوئی معلومات حاصل نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فکسنگ کے لیے کپتان کا ملوث ہونا ضروری ہے کیونکہ کپتان کے علم میں لائے بغیر میچ کے نتائج تبدیل نہیں کروائے جاسکتے۔ عمران خان نے انتخاب عالم کو ایک نفیس آدمی قرار دیا اور کہا کہ ان کی بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑی پر تاحیات پابندی کی سزا تجویز کی۔
سٹے باز سلیم پرویز بھی انکوائری کمیشن کے روبرو آئے، جنہوں نے اقرار کیا کہ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف شارجہ فائنل ہارنے کے لیے ایک لاکھ ڈالرز سلیم ملک اور مشتاق احمد کو دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں کھلاڑیوں نے براہِ راست ان سے رابطہ کیا تھا اور اس سے زیادہ رقم طلب کی تھی، لیکن پھر معاملہ ایک لاکھ ڈالر میں طے ہوگیا۔ پاکستان یہ میچ ہار گیا تھا۔
مشتاق احمد سے جب بات کی گئی تو انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس میچ میں تو ان کی کارکردگی بہت اچھی تھی۔ جب سوال کیا گیا کہ وہ کس میچ کی بات کر رہے ہیں تو مشتاق احمد جھینپ گئے اور کوئی جواب نہ دے پائے۔ سلیم پرویز کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان جنوبی افریقہ میں ہونے والی منڈیلا ٹرافی کے فائنل اور ورلڈ کپ 96ء کا پاک-بھارت کوارٹر فائنل بھی جان بوجھ کر ہارا تھا۔
چیئرمین پی سی بی خالد محمود کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ میچ فکسنگ ہو رہی ہے یا نہیں، البتہ انہیں یہ ضرور یقین ہے کہ 1992ء میں پاک-انگلینڈ ناٹنگھم ون ڈے فکس نہیں تھا۔ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے کھلاڑی حریف کو میدان میں اور میدان سے باہر خوف زدہ کرنے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
سابق کپتان اور چیف ایگزیکٹو پاکستان کرکٹ بورڈ ماجد خان نے بتایا کہ آزادی کپ 1997ء میں ناقص کارکردگی کے بعد جب انہوں نے ہارون رشید سے پوچھ گچھ کی تو ان کا کہنا تھا کہ وسیم اکرم جیتنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے مطابق وسیم اکرم بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کر رہے تھے جس سے مسئلہ پیدا ہو رہا تھا۔ یہی کچھ انہوں نے شارجہ میں بھی دہرایا کہ جہاں وہ اظہر محمود اور معین خان سے بھی پہلے میدان میں آئے۔ ماجد خان کے مطابق ملوث افراد کو ایسی سزا دینی چاہیے جو دوسرے کھلاڑیوں کے لیے عبرت کا باعث ہو۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کو کھلاڑیوں کے اثاثوں کی بھی تحقیقات کرنی چاہیے۔
کھلاڑیوں کے بیانات
بیانات کا دائرہ جب کھلاڑیوں تک پھیلا تو بڑے متضاد بیانات، دعوے اور تردیدیں دیکھنے میں آئیں جیسا کہ سلیم ملک کا کہنا تھا کہ شین وارن نے مجھ پر اس لیے الزام لگایا کیونکہ میں ہی وہ واحد بیٹسمین تھا جسے وہ آؤٹ نہیں کر پاتا تھا۔ اعجاز احمد تو ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے اور کہا کہ انہوں نے تو میچ فکسنگ اور سٹے بازی کے بارے میں کبھی کچھ سنا بھی نہیں۔
البتہ عاقب جاوید ان کھلاڑیوں میں سے تھے جنہوں نے کھل کر بات کی اور بتایا کہ بدنام زمانہ سٹے باز حنیف کیڈبری کو دورۂ جنوبی افریقہ میں کچھ کھلاڑیوں کے ساتھ آزادانہ گھومتے پھرتے دیکھا۔ انہیں وسیم اکرم نے بھی دوسرے کھلاڑی کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ وہ ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے اور ان کے کپتان ہوتے ہوئے کبھی نہیں کھیل سکتے۔ عاقب کے الزامات کا دائرہ بھی سلیم ملک اور وسیم اکرم کے گرد گھومتا نظر آیا لیکن ثبوتوں کی عدم موجودگی اب بھی ایک سوال تھی۔
بیٹسمین باسط علی کا کہنا تھا کہ سلیم ملک اور دیگر کھلاڑیوں نے ٹیم میں جو ماحول بنایا تھا، اس کی وجہ سے انہیں ریٹائرمنٹ لینا پڑی۔ پھر فاسٹ باؤلر عطاء الرحمٰن نے اپنا بیان بارہا تبدیل کیا۔ پہلے کہا کہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے ون ڈے میں خراب باؤلنگ پر انہیں وسیم اکرم کی جانب سے ایک لاکھ روپے دیے گئے۔ لیکن وسیم اکرم کی جانب سے جرح کے بعد وہ اس بیان سے پلٹ گئے اور کہا کہ وسیم اکرم کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔ یوں معاملہ گمبھیر ہوتا چلا گیا۔
وقار یونس نے اپنے خلاف تمام الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ انہیں نہ کبھی کسی سٹے باز نے کوئی رقم دی، نہ گاڑی اور عاقب جاوید کا ان کے خلاف بیان ٹھیک نہیں۔ عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ ایک سٹے باز نے وقار یونس کو ایک پجارو دی تھی۔