لاک ڈاؤن پر مختلف آراء سے لوگ اعصابی مریض بن رہے ہیں، ماہرین
کراچی: پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ (پی اے ایم اے ایچ) نے صوبہ سندھ اور خصوصی طور پر دارالحکومت کراچی کے لوگوں کی ذہنی و جسمانی صحت پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا۔
دماغی صحت پر کام کرنے والی تنظیم نے لوگوں کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لاک ڈاؤن سے متعلق مختلف آراء لوگوں کو ذہنی و اعصابی طور پر بیمار کر رہی ہیں۔
تنظیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کا معاملہ ملک کے مختلف شہروں، کوئٹہ، پشاور، لاہور کراچی میں تماشا بن کر رہ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا 9 مئی سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان
تنظیم کے مطابق لاک ڈاؤن کے معاملے میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے، کیوں کہ وزیر اعظم کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے وقت یومیہ اجرت پر کمانے والے، مزدوروں اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے افراد کی بات کرتے ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ کاروبار سے زیادہ زندگیوں کی حفاظت کو اہمیت دیتے ہیں۔
پی اے ایم اے ایچ کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو وزیر اعظم کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اگلے 2 سے 3 ہفتے انتہائی اہم ہیں اور دوسری طرف وہ کاروبار بھی کھولنا چاہتے ہیں۔
تنظیم کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے ایسی مختلف آراء سے لوگ اضطراب میں مبتلا ہو رہے ہیں جس سے عوام میں شدید ذہنی مسائل پیدا ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
مزید پڑھیں: سندھ: تمام کاروبار، آفس جو 9 مئی تک بند تھے بدستور بند رہیں گے، مرتضیٰ وہاب
دماغی صحت پر کام کرنے والی تنظیم نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن نافذ رہنے اور کاروبار کو کھولنے کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کی ہیں۔
تنظیم نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زیادہ تر گھروں میں ہی رہنے کو ترجیح دیں اور غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں اور جب باہر نکلیں تو مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
تنظیم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ کاروبار کو دن کے کچھ مخصوص اوقات میں کھولا جا سکتا ہے اور اسی طرح کاروباروں کو پورے ہفتے کے بجائے مخصوص دنوں میں کھولا جائے۔
ساتھ ہی تنظیم نے مشورہ دیا ہے کہ فیس ماسک کے پہننے کو لازمی قرار دیا جائے۔
یہ رپورٹ 8 مئی کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی