بیان میں کہا گیا کہ نئی مائیں بننے والی خواتین اور نومولود بچوں کوو تلخ حقائق کا سامنا ہوگا جن میں لاک ڈاؤنز اور کرفیوز شامل ہیں جبکہ طبی مراکز پہلے ہی طبی آلات کی قلت کا سامنا کررہے ہیں اور زچگی میں مدد دینے والے عملے کی کمی بھی شامل ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہنریٹیا فورے کا کہنا تھا 'دنیا بھر میں لاکھوں مائیں اس دنیا میں ماں بننے کے سفر کا آغاز کررہی ہیں، انہیں بھی اس زندگی کے لیے تیار ہونا ہوگا جو اب دنیا کا حصہ بننے والی ہے، ایسی دنیا جہاں مائیں وائرس کے خطرے سے بچنے کے لیے طبی مراکز میں جانے سے گھبرائیں گی یا لاک ڈاؤنز اور طبی خدمات ایمرجنسی کیئر کے باعث دباؤ کا شکار ہوگا'۔
عالمی ادارے نے خبردار کیا کہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات زندگی بچانے والی خدمات جیسے بچوں کی پیدائش کو متاثر کرسکتے ہیں، جس سے لاکھوں حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
اگلے 9 ماہ میں جن ممالک میں بہت زیادہ تعداد میں بچوں کی پیدائش کا امکان ہے ان میں بھارت 2 کروڑ 10 لاکھ کے ساتھ سرفہرست ہے، جس کے بعد چین میں ایک کروڑ 35 لاکھ، نائیجریا میں 64 لاکھ ، پاکستان میں 50 لاکھ اور انڈونیشیا میں 40 لاکھ بچوں کی پیدائش ہوسکتی ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر میں دوران زگی ہلاکتوں کی شرح وبا سے قبل بھی کافی زیادہ تھی اور کووڈ 19 کے نتیجے میں اس میں مزید اضافے کا خطرہ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس بحران سے متاثر ہوسکتے ہیں، امریکا اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں 33 لاکھ بچوں کی پیدائش 11 مارچ سے 16 دسمبر کے دوران متوقع ہے، نیویارک میں انتظامیہ بچوں کی پیدائش کے متبادل مراکز پر غور کررہی ہے کیونکہ ہسپتالوں میں جانے کے خیال سے متعدد حاملہ خواتین فکرمند ہیں۔
عالمی ادارے نے خبردار کیا کہ اگرچہ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ حاملہ خواتین کووڈ 19 سے دیگر حلقوں جتنی زیادہ متاثر نہیں ہوتیں مگر ممالک کو ان کو تمام طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا چاہیے۔
اگرچہ ابھی یہ ثابت نہیں ہووسکا کہ ماں سے زچگی کے دوران بچے میں کورونا وائرس منتقل ہوسکتا ہے مگر عالمی ادارے نے تمام حاملہ خواتین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود یکو وائرس سے بچانے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں، کووڈ 19 کی علامات کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور علامات کا سامنا ہو یا خدشہ ہو تو طبی مراکز سے رجوع کریں۔