پاکستان میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیسے اور کہاں کروایا جاسکتا ہے؟
دسمبر 2019 سے دنیا بھر میں پھیلنے والے نوول کورونا وائرس نے اب تک لاکھوں افراد کو متاثر و ہلاک کردیا ہے جبکہ ممالک اپنی ٹیسٹنگ کی سہولت کو بڑھا رہے ہیں تاکہ لوگوں میں وائرس کا معلوم ہوسکے اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان یومیہ 14 ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا 20 ہزار ٹیسٹ یومیہ تک استعداد بڑھانے کا ارادہ ہے۔
ایک طرف صوبہ خیبرپختونخوا نجی لیبارٹریز کو ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے رہا ہے تاکہ صلاحیت کو بڑھایا جاسکے تو دوسری طرف سندھ حکومت نے کریانے اور سبزیوں کی دکانوں میں لوگوں کی بغیر کسی ترتیب کے ٹیسٹنگ کی ہدایت کی ہے۔
شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد اس بات پر ہی زور دیتے ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف جنگ صرف ٹیسٹنگ کی صلاحیت کو بڑھا کر، متاثرہ افراد کو آئیسولیٹ کرکے اور ہیلتھ کیئر اسٹاف کو مکمل حفاظتی سامان فراہم کرکے ہی جیتی جاسکتی ہے۔
اسی حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس اڈہانوم کہتے ہیں کہ 'ہمارے پاس تمام ممالک کے لیے ایک پیغام ہے، ٹیسٹ، ٹیسٹ اور ٹیسٹ'۔
کس طرح چیک کروایا جاسکتا ہے؟
ایسے لوگ جنہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں کچھ علامات ہیں، ان کے لیے ڈان نے صحت حکام سے رابطہ کیا تاکہ وہ طریقہ معلوم ہوسکے جس کے ذریعے مفت میں وائرس کا ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔
آپ کو کیا جاننے کی ضرورت ہے
کسی مریض کو شبہ ہے کہ اسے کورونا وائرس کی علامات ہیں تو اسے حکومتیسطح پر نامزد سرکاری یا نجی ہسپتال جانا چاہیے، قومی ادارہ صحت کےعہدیدار ڈاکٹر ممتاز علی خان کے مطابق ملک بھر میں تمام ڈسٹرکٹہیڈکوارٹرز ہسپتالز اور ٹیرٹری کیئر ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے نمونےلینے کی سہولت موجود ہے۔
قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام کے مطابقہسپتال میں ڈاکٹر مریض کی علامات کو دیکھے گا کہ آیا اسے کورونا وائرسہے یا نہیں۔
اس دوران مریض سے ان کی ٹریول ہسٹری (سفری تاریخ) سمیت یا ایسے لوگوں کےساتھ قریبی رابطے سے متعلق سوالات کیے جائیں گے۔
اگر ڈاکٹر کو کورونا وائرس کا شبہ نہ ہوا تو وہ مریض کو واپس بھیج دیںگے۔
ڈاکٹر اکرام کے مطابق اگر ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے کہ مریض کو علاماتہیں تو پھر اس کے نمونے لے کر متعلقہ مقامات میں سے ایک جگہ بھیجیں گےجہاں ٹیسٹنگ کی سہولیات دستیاب ہوں، یہ ٹیسٹنگ بالکل مفت کی جائے گی۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں حکومت کی دیگر سہولیاتی مراکز میں بھی بالکلمفت ٹیسٹ کیا جارہا ہے تاہم کچھ نجی لیبز بھی وائرس کی ٹیسٹنگ فراہم کررہی ہیں۔
ٹیسٹ کہاں سے کروایا جاسکتا ہے
سندھ
- ایڈوانس ڈائگنوسٹک سینٹر کراچی
- آغا خان یونورسٹی ہسپتال کراچی
- چغتائی لیب کراچی
- ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسر، اوجھا- کراچی
- ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال- کراچی
- ضیاالدین ہسپتال کراچی
- انڈس ہسپتال کراچی
- پی این ایس شفا کراچی
- ایس آئی یو ٹی کراچی
- ڈرائیو تھرو ٹیسٹنگ فیسیلٹی کراچی
- گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز خیرپور
- لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز حیدرآباد
پنجاب
- پروونشل پبلک ہیلتھ ریفرنس لیب (پی پی ایچ آر ایل) پی ایچ ایس ڈی
- شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور
- پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ لاہور
- نشتر ہسپتال ملتان
- چغتائی ٹیسٹنگ لیب
- انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ لاہور
- الائیڈ ہستپال فیصل آباد
- سول ہسپتال بہاولپور
خیبرپختونخوا
- خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پشاور
- حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پشاور
- ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد
- سیدو ٹیچنگ ہسپتال سوات
- مفتی محمود میموریل ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ اسمٰعیل خان
- رحمٰن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پشاور
- نارتھ ویٹ جنرل ہسپتال پشاور
- انور لیب پشاور
بلوچستان
- فاطمہ جناح ہسپتال کوئٹہ
اسلام آباد
- نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ
آزاد جموں و کشمیر
- عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز مظفرآباد
- شیخ خلیفہ بن زاید النہیان ہسپتال (سی ایم ایچ) راولاکوٹ
- ڈویژن ہیڈکوارٹرز ہسپتال میرپور
گلگت بلتستان
- علاقے میں موجود تمام ضلعی ہسپتالوں میں نمونے لینے کی سہولت دستیاب ہےجس کے بعد ان نمونوں کو گلگت یا اسکردوں میں ٹیسٹنگ کے لیے بھیجا جاتاہے۔
ان تمام سہولیات کے علاوہ شہری اپنے قریبی عوامی صحت کے مراکز یا ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں اسکرینگ کرواسکتے ہیں۔
ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں کیا کریں؟
وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو دی گئی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ جس مریض میں معمولی علامات ظاہر ہوں تو اسے گھروں میں آئیسولیٹ کیا جائے جبکہ صرف ان مریضوں کو ہسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی جائے گی جنہیں اس کی ضرورت ہوگی۔
وفاقی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) کے مطابق ایسے مریضوں کو گھروں میں آئسیولیٹ کرنے سے 'بیماری کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی اور نظام صحت پر دباؤ کم پڑے گا'۔
ان ہدایات میں مریضوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ دیگر لوگوں سے رابطوں کو محدود رکھیں اور اگر ضرورت کے تحت باہر جانا پڑے تو 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیں۔
ساتھ ہی یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ مریض تمام ضروری احتیاطی تدابیر کو اپنائیں اور جس جگہ کو وہ چھوئیں اسے صاف اور جراثیم سے پاک کردیں۔
تاہم مریضوں کو یہ بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر حالت بگرتی ہے تو انہیں فوری طور پر ہسپتال جانا چاہیے۔
اس کے بارے میں سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کہتی ہیں کہ آپ اس بیماری کو چھپا نہیں سکتے، جتنی جلدی آپ اس میں مدد لیں گے اتنی ہی جلدی محفوظ ہوں گے۔
انہوں نے عوام خاص طور پر ذیابیطس، دل یا گردے کی بیماریوں کا شکار افراد سے اپیل کی کہ جیسے ہی ان کی طبیعت خراب ہو وہ فوری طور پر ہسپتال آئیں۔