امریکا اسی طرح امریکا میں ایک پوسٹمارٹم سے معلوم ہوا تھا کہ کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے ہلاکتیں پہلی آفیشل موت سے کئی ہفتے پہلے ہوچکی تھیں۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 2 افراد کی لاشوں کے معائنے سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ دونوں فروری کی ابتدا اورر وسط میں نوول کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے، اس سے پہلے مانا جارہا تھا کہ امریکا میں اس وائرس سے پہلی ہلاکت 29 فروری کو ہوئی تھی۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق دونوں ہلاکتیں امریکا میں اولین اموات ہوسکتی ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں وائرس پھیلنے کا عمل جنوری سے ہی شروع ہوچکا تھا۔
ان نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ توقعات سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہوچکے ہیں، چونکہ اس بیماری میں بیشتر افراد میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی ہوتی ہیں، جبکہ علامات بھی فلو سے کافی ملتی جلتی ہیں، تو کسی ملک میں بیشتر متاثرہ افراد میں اس وائرس کا علم ہی نہیں ہوسکا اور ہوسکتا ہے کہ متعدد افراد میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوچکی ہو۔
تاہم اس برطانوی تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ابھی ایسے شواہد نہیں ملے کہ کسی ملک میں اتنے لوگ متاثر ہوچکے ہوں جو اس کو پھیلنا مزید مشکل بنادے، جس سے یہ خیال ہوتا ہے کہ اس وائرس کا پھیلاؤ بہت زیادہ عرصے سے نہیں ہورہا۔
مگر ان کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ 10 فیصد عالمی آبادی یا 76 کروڑ افراد اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ مصدقہ کیسز ابھی 38 لاکھ سے زیادہ ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ یہ وائرس حال ہی میں نمودار ہوا ہے اور نتائج سے سابقہ اندازوں کی تصدیق ملتی ہے کہ 2019 کے آخر میں یہ چمگادڑ سے کسی اور جانور اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت زیادہ پہلے کی بات نہیں، ہم بہت زیادہ پراعتماد ہیں کہ یہ گزشتہ سال کے آخر میں ہوا اور دنیا بھر میں اس میں آنے والی تمام تبدیلیاں بھی ملتی جلتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ لگ بھگ ناممکن ہے کہ کسی ملک میں اس وائرس کے پہلے مریض کو تلاش کیا جاسکے کیوکہ یہ یورپ اور امریکا میں پہلے مصدقہ کیس سے کئی ہفتے یا مہینوں پہلے ہی پھییل چکا ہوگا۔
اپریل میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس کی وبا ممکنہ طور پر گزشتہ سال ستمبر کی وسط میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور چین کا شہر ووہان سے اس کا آغاز نہیں ہوا۔
کیمبرج یونیورسٹی کی اس تحقیق کے دوران کووڈ 19 کی وبا کی بنیاد ڈھونڈنے پر کام ہورہا ہے اور تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ وہ اس پہلے فرد کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوجائے گی جو اس وائرس کا پہلا شکار بنا، جس کے بعد یہ آگے پھیلنا شروع ہوا۔
اس تحقیق کے دوران اس تحقیق میں کورونا وائرس کے 1 ہزار سے زائد مکمل جینومز کو دیکھا گیا جن کا سیکوئنس انسانی مریضوں سے تیار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں جینیاتی تبدیلیوں کی بنیاد پر وائرس کو ٹائپ اے، بی اور سی میں تقسیم کیا گیا اور ٹائپ اے ٹائپ اے وائرس ممکنہ طور پر چمگادڑوں سے براستہ پینگولین انسانوں میں چھلانگ لگا کر پہنچا تھا۔
ٹائپ اے کو چینی اور امریکی شہریوں میں دریافت کیا گیا جس کا تبدیلیوں والا ورژن آسٹریلیاں اور امریکا تک پہنچا۔
تحقیق کے مطابق ووہان میں زیادہ تر کیسز میں ٹائپ اے وائرس نظر نہیں آیا بلکہ ٹائپ بی وائرس متحرک تھا جس سے عندیہ ملتا ہے کہ وہاں کسی ایونٹ سے یہ بدلنا شروع ہوا۔
ٹائپ سی ورژن ٹائپ بی کے بطن سے نکلا جو یورپ کے ابتدائی کیسز میں نظر آیا جبکہ جنوبی کوریا، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی اس کے مریض تھے مگر چین میں اس کے آثار نہیں ملے۔
محققین کے مطابق جمع شدہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا 13 ستمبر سے 7 دسمبر کے دوران پھیلنا شروع ہوئی اور اس کی بنیاد وائرس میں تبدیلیوں کی شرح کی رفتار ہے۔
تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وقت کا تخمینہ غلط بھی ہوسکتا ہے مگر فی الحال یہی تخمینہ درست لگتا ہے، اس حوالے سے مزید مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا جائے گا۔
تحقیقی ٹیم کے قائد پیٹر فورسٹر کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اس وبا کے آغاز ووہان سے نہیں ہوا کیونکہ وہاں تمام مریضوں میں ٹائپ بی وائرس دریافت ہوا، البتہ ووہان سے 500 میل دور واقع صوبے گوانگ ڈونگ میں 11 میں سے 7 جینومز میں ٹائپ اے کو دیکھا گیا، یہ تعداد بہت کم ہے کیونکہ وبا کے ابتدائی مرحلے کے جینومز کی تعداد بہت کم تھی۔