وزیراعظم عمران خان نے ہفتہ (9 مئی) سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کا اعلان کردیا۔
قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم نے 13 مارچ کو لاک ڈاؤن نافذ کیا اور عوامی مقامات کو بند کیا لیکن مجھے پہلے دن سے یہی خوف تھا کہ ہمارے حالات یورپ، چین سے مختلف ہیں اور ہم نے جو لاک ڈاؤن کرنا ہے وہ مختلف ہوگا کیونکہ یہاں یومیہ اجرت پر کام کرنے والا دار طبقہ ہے اور ہمیں خدشہ تھا کہ اگر سب بند کردیا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم پوری دنیا میں حالات کو دیکھ رہے تھے کہ یہ وائرس کیسے پھیل رہا ہے، دنیا کے ممالک میں روزانہ ہزار لوگ مر رہے تھے اور اس سب کو دیکھتے ہوئے ہم نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) بنایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ خوش قسمتی سے پاکستان میں کورونا وائرس کی وہ لہر نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو این سی او سی کا سربراہ بنایا اور اس کے تحت روزانہ تمام صوبوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور ڈاکٹرز سے تجاویز لے کر صورتحال کا جائزہ اور فیصلے کیے جاتے ہیں۔
عمران خان نے کہاکہ ہم نے تمام صوبوں کی مشاورت سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے کیے، پاکستان میں کیسز اور اموات کی شرح آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے لیکن آج ہم یہ کہہ نہیں سکتے کہ اس وبا کا عروج ایک ماہ میں آئے گا یا 2 ماہ میں آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ہفتہ (9 مئی) سے مرحلہ وار لاک ڈاؤن میں نرمی کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں چھوٹے دکاندار، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد، رکشہ و ٹیکسی ڈرائیورز مشکل میں ہیں، ہمیں خدشہ ہے چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعت مکمل طور پر بند نہ ہوجائے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو رقم فراہم کی ہم آگے یہ کب تک کرسکتے ہیں؟ ہمارا ٹیکس 35 فیصد کم ہوگیا ہے، برآمدات اور ریونیو میں کمی آئی ہے، حکومت کے پاس پہلے ہی پیسہ نہیں ہے اور تمام شعبے ہی مشکلات کا شکار ہیں، ایسے میں تمام متاثرین کی مدد نہیں کرسکتے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں لیکن عقلمندی سے، اگلے مرحلے میں ہماری کامیابی میں پاکستانیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوگا، اگر اس وقت ہم ایک قوم بن کر خود احتیاط کریں اور منظم طریقے سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پیز) پر عمل کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ قوم کی ذمہ داری ہے کہ ایس او پیز پر عمل کریں، ہم یہ نہیں سمجھتے کہ پولیس جا کر چھاپے مارے اور اس پر عملدرآمد کروائے کیونکہ آزاد اور مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا، عوام کو اگر مشکل مرحلے سے نکلنا ہے تو حکومت ڈنڈے کے زور پر نہیں کہہ سکتی کہ نماز کے دوران فاصلہ رکھیں، حکومت کتنی فیکٹریوں میں جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر مشکل وقت سے نکلنا ہے تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اگر پھر سے کورونا وائرس کے کیسز بڑھ گئے اور لوگوں نے احتیاط نہ کی تو ہمیں سب بند کرنا پڑے گا، وقت آگیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے اثرات سے بچنے کے لیے ذمہ دار شہری بن کر تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔
'صوبوں کے خدشات کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ پر اتفاق نہیں ہوا'
وزیراعظم نے بتایا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملے پر مکمل طور پر اتفاق نہیں ہے، میرے خیال سے اسے کھلنا چاہیے کیونکہ یہ ایک عام آدمی استعمال کرتا ہے اور اس سے غریب کو فائدہ ہوتا ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کی بھی یہی رائے تھی کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرین سروس کو بحال کیا جائے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ چونکہ ابھی صوبوں کو خدشات ہیں اور ابھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جس سے صوبوں کو مسئلہ ہو لہٰذا وہ خود اس حوالے سے ایس او پیز تیار کریں۔
انہوں نے کہا کہ اسد عمر سے کہا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق این سی او سی صوبوں سے مشاورت کریں اور کوشش کریں کہ ایس او پیز کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ چلائی جاسکے۔
عمران خان نے کہا کہ اس وقت سوا لاکھ پاکستانی بیرون ملک پھنسے ہوئے ہیں اور وہ وطن واپس آنا چاہتے ہیں اور بیرون ملک سے جو پاکستانی واپس آرہے ہیں انہیں بہت سے مسائل درپیش ہیں کہ ٹیسٹ کے لیے قرنطینہ کیا جاتا ہے لیکن وہ گھر جانا چاہتے ہیں۔