’7 ہیں 7، تم لوگوں کو یقین کیوں نہیں ہو رہا کہ وقت نے تمہارے ساتھ عجیب دھوکہ کیا ہے اور چپکے سے سَرَک کر آگے نکل گیا ہے‘، اس نے کہا۔
بس پھر یونہی وقت آگے سرَکتا رہا اور ایک رات جب 3 بجے اس کی آنکھ کھلی تو دراصل اس کے لیے 6 بج چکے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے باہر تندور پر پہنچا، لیکن آگے اندھیرا تھا۔
’اوہ یعنی اب سورج بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ 6 بج چکے ہیں اور ابھی تک نہیں نکلا‘، وہ سوچنے لگا کہ ہر شے پیچھے کی جانب کیسے سفر کرنے لگ گئی ہے۔ وہ گلیوں گلیوں گھومتا رہا اور لوگوں کی سست طبعیت پر کڑھتا رہا جو دن نکلنے کے باوجود صرف اور صرف اس لیے سو رہے ہیں کہ ان کی گھڑیوں پر ٹھیک وقت نہیں ہوا حالانکہ اس وقت تک تندور کھل جانے چاہئیں، بچوں کو اسکول جانے کی تیاری کرنی چاہیے اور سورج؟ اسے تو ضرور نکلنا چاہیے ورنہ لوگ یونہی اپنی نیندوں میں ڈوبے رہیں گے۔
جب وہ گلیوں میں گھوم رہا تھا، تب اس کی بیوی کی آنکھ کُھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ وہ بستر پر موجود نہیں۔ وہ پریشان ہوکر بیٹھ گئی، اس نے کئی بار اپنے شوہر کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا فون لگاتار بند تھا، حتٰی کہ 6 ہوگئے تب ہی وہ ہاتھوں میں نان لیے گھر میں داخل ہوا۔
’کہاں تھے تم؟‘، بیوی نے جیسے ہی اسے دیکھا دوڑ کر اس کے پاس آئی اور پوچھا۔
’میں کہاں تھا؟ دنیا سے پوچھو جو دن چڑھے تک سوئی رہتی ہے، تم جاکر حامد کو جگاؤ، دیر ہورہی ہے، یہاں 9 بج چکے ہیں۔ میں تمہیں ایک بات بتاؤں، ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوچکا ہے، وقت چپکے سے 3 گھنٹے آگے نکل چکا ہے یا شاید دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔ میں ابھی تک اس مسئلے کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا کہ کون آگے نکل چکا ہے اور کون پیچھے لیکن کچھ گڑبڑ ضرور ہوچکی ہے۔‘
’دیکھو ہمیں پھر کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوگا۔ آپ بہت عجیب باتیں کرنے لگے ہیں اور یہ تندور پر صبح صبح مت جایا کریں، اتنی دفعہ آپ کو منع کیا ہے‘، اس کی بیوی نے تقریباً روتے ہوئے اس سے کہا۔
’تو کیا تم سمجھتی ہو کہ میں پاگل ہوگیا ہوں؟ اگر میں پاگل ہوچکا ہوتا تو کیا میں تمہیں اور حامد کو پہچانتا؟ دفتر میں کام بھی ٹھیک کر رہا ہوں اور آج دیکھو لیٹ بھی ہوگیا ہوں۔‘
’آپ لیٹ نہیں ہوئے، سمجھنے کی کوشش کریں۔ ابھی 6 بجے ہیں‘، اس کی بیوی نے کہا۔
’9 بج کر 10 منٹ ہیں۔ دنیا پیچھے رہ گئی ہے۔‘
’وقت بھلا اپنی رفتار کیسے بدل سکتا ہے؟‘، اس کی بیوی نے پوچھا۔
’زمین پر موجود موسم جب اپنا آپ بدل سکتے ہیں، ٹھنڈے علاقوں میں گرم لُو اور گرم علاقوں میں برف باری ہوسکتی ہے تو وقت اپنی رفتار کیوں کر نہیں بدل سکتا؟ اس بحث کا وقت نہیں ہے، مجھے دیر ہورہی ہے‘، اس نے جواب دیا۔
اس کی بیوی رونے لگی۔ وہ خود بھی پریشان ہوگیا، یہ سب کیا ہے، لوگوں کو اس کی باتوں کا یقین کیوں نہیں ہورہا۔
’اچھا اگر تمہیں محسوس ہوتا ہے کہ میرے ساتھ کچھ مسئلہ ہے تو ہم آج ہی ڈاکٹر کے پاس چلیں گے۔‘، اس نے بیوی سے کہا۔
ڈاکٹر نے اس کا چیک اَپ کیا اور بتایا کہ اس کی انٹرنل کلاک ہل گئی ہے۔
’کیا آپ نے کسی دُور دراز ملک کا سفر کیا ہے؟‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’نہیں بالکل نہیں، میں کبھی بھی اپنے ملک سے باہر نہیں گیا‘، اس نے جواب دیا۔
’شاید آپ وقت پر سوتے اور جاگتے نہیں‘، ڈاکٹر نے کہا۔
’بالکل غلط، میں پورے 9 بجے رات سونے چلا جاتا ہوں‘، اس نے جواب دیا۔
’ڈاکٹر صاحب کل جب یہ 9 بجے سونے لگے تو اس وقت ہمارے وقت کے مطابق 6 بج رہے تھے، انہوں نے کھانا بھی نہیں کھایا کہ اب کافی دیر ہوگئی ہے حالانکہ سورج ابھی نہیں ڈوبا تھا‘، اس کی بیوی نے ڈرتے ڈرتے ڈاکٹر سے کہا۔
’ہمارے 6 نہیں، ہمارے 9 بج چکے تھے، آپ لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے کہ ہم 3 گھنٹے پیچھے رہ گئے ہیں اور وقت آگے نکل گیا ہے۔‘
’ایسا بھلا کیسے ممکن ہے کہ آدمی پیچھے رہ جائے اور وقت آگے نکل گیا ہو؟‘، ڈاکٹر نے سوال کیا۔
’ہوسکتا ہے۔ بالکل ہوسکتا ہے۔ وقت اور آدمی کی رفتار ایک سی تو نہیں۔ وقت کسی بھی لمحے آگے نکل سکتا ہے یا ہم پیچھے رہ سکتے ہیں۔ وقت عجیب بھید ہے‘، اس نے جواب دیا۔
’کیا کوئی حادثہ؟‘، ڈاکٹر نے پوچھا تو اس کی بیوی زار و قطار رونے لگی۔
’یہ اس حادثے کے بعد کومے میں چلے گئے تھے، بعد میں ہوش میں تو آگئے لیکن پھر اب یہ اس شب و روز سے مطمئن نہیں‘، اس کی بیوی نے روتے ہوئے کہا۔
’کوئی حادثہ نہیں ہوا، یہ سب جھوٹ ہے، بکواس ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں‘، وہ چلّاتے ہوئے اٹھا اور ڈاکٹر کے کمرے میں اِدھر سے اُدھر گھومنے لگا۔
’میں آپ کو چند ادویات لکھ کر دے رہا ہوں، آرام کیجیے۔ آپ کو سکون کی ضرورت ہے‘، ڈاکٹر نے اس سے کہا۔
’ہاں ہاں آپ کو کچھ نہیں ہوا، آپ گاڑی میں جاکر بیٹھیں، ابھی تو ہمیں واپسی پر اسکول بھی جانا ہے، میں یہ ادویات لے کر آتی ہوں‘، اس کی بیوی نے کہا۔
’ہاں جلدی کرو، دیر ہورہی ہے‘، وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
محمد جمیل اختر
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔