پاکستان میں پھنسے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو واپس بھیجنا زیادہ ضروری کیوں؟


کچھ دن پہلے وزیرِاعظم کے مشیرِ خاص ڈاکٹر معید یوسف نے پریس کانفرنس کی۔ اس کانفرنس کے اہم مقاصد میں سے ایک بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کی وطن واپسی کے حوالے سے (چند وضاحتوں کے ساتھ) مستند معلومات کی فراہمی تھا۔
بیرونِ ملک پاکستانیوں کو وطن واپسی لانے کی حکومتی کوششوں کی رہنمائی کرتے دکھائی دینے والے معید یوسف اس ٹاسک کے لیے موزوں انتخاب ہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک وہ خود بھی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی تھے۔
ڈاکٹر معید یوسف کے مطابق متحدہ عرب امارات جیسی جگہوں پر ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔ کچھ تو اس قدر وسائل سے عاری ہیں کہ ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں اور وہ سڑکوں پر شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔
ایسے پاکستانیوں کو حکومت کے قائم کردہ اور مرتب کردہ معیار کے مطابق وطن واپسی کے لیے ترجیح دی گئی ہے کیونکہ انہیں فوری مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ 80 ممالک سے زائد ملکوں میں پھنسے وہ پاکستانی جو حکومت کے قائم کردہ معیار پر پورا اترتے ہیں انہیں بھی وطن واپس لانے کا بندوبست کیا جائے گا تاہم ممکن ہے کہ ان پاکستانیوں کو اپنی واپسی کے لیے مزید انتظار کرنا پڑے۔
کچھ دن پہلے کولمبو میں پھنسے 50 پاکستانیوں نے سری لنکن ایئرلائنز کی پرواز کے ذریعے وطن واپسی کی راہ لی تھی۔ چند روز قبل مزید 40 افراد کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ ایسی جگہیں جہاں پی آئی اے لینڈنگ حقوق نہیں رکھتی وہاں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لیے دیگر ایئرلائن (قطر ایئر ویز کا خاص طور پر نام بھی لیا گیا) کی پروازوں کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کس طرح لوٹنا ہے اور کون سی پروازیں دستیاب ہیں یا کون سی منسوخ ہوچکی ہیں؟ گزشتہ چند ہفتوں سے یہ سب پتا لگانا تو تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
عالمی وبا اور لاک ڈاؤن نے کئی مختلف مسائل اور پریشانیوں کو جنم دیا ہے۔ ان پاکستانیوں کی مشکلات بہت ہی دردناک ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے ہی لگائیے کہ جن ملکوں میں انہوں نے دہائیوں کام کیا وہاں وہ اب خود کو 'غیر مطلوب' محسوس کرنے لگے ہیں۔
کم از کم 60 ہزار پاکستانیوں میں سے ہر ایک کی ملازمت سے محرومی کا مطلب یہ ہوا کہ ترسیلاتِ زر کی صورت میں لاکھوں روپے پاکستان منتقل ہونا بند ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ یہی وہ ترسیلاتِ زر ہے جس کی بدولت پاکستان نے اپنی معاشی گاڑی کو اب تک کھینچا ہے۔
اس کے نتیجے میں ملکی جی ڈی پی کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے حکومت کون سی منصوبہ بندی کر رہی ہے اس بارے میں بھی اگر وضاحت گوش گزار کردی جاتی تو اور بھی اچھا رہتا۔ شاید اس موضوع کو بحران زدہ حالات کے خاتمے تک منسوخ کردیا گیا ہے کہ جب بحران قصہ پارینہ بن چکا ہوگا اور ہم لوگ بے رحم وبا کے خوف کے بغیر بطور انسان ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ یہی معاملہ ہو لیکن پریس کانفرنس کے دوران وطن واپسی کے معاملے پر ہونے والی گفتگو میں مسئلے کا نصف حصہ مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا۔ ہزاروں پاکستانی جو بیرونِ ملک رہتے یا کام کرتے ہیں وہ پاکستان میں پھنسے ہیں اور بیرونِ ملک پروازوں کے منتظر ہیں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جن کے پاس اس وقت بھی بیرونِ ملک ملازمتیں ہیں اور وہ اب بھی بیرونِ ملک سے پاکستان رقوم بھیج سکتے ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@