پاکستان

لمز کی فیسوں میں اضافے پر طلبہ اور اساتذہ کا احتجاج

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے سیمسٹر فیس میں 40 فیصد سے زائد اضافے کے فیصلے کو ٹوئٹر پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
|

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی جانب سے سیمسٹر فیس میں 40 فیصد سے زائد اضافے کے بعد طلبہ اور اساتذہ نے یونیورسٹی کے اس فیصلے کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

طلبہ اور یونیورسٹی کے فیکلٹی کے اراکین نے خصوصی طور پر موجودہ حالات میں فیس میں اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جہاں کورونا وائرس کے سبب اکثر خاندانوں کو معاشی مشکلات درپیش ہیں۔

مزید پڑھیں: لمز میں کورونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، وائس چانسلر کی تصدیق

منگل کو یونیورسٹی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے فیسوں میں اضافے کا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ فیسوں میں اضافے کا فیصلہ وبا پھوٹنے سے قبل کیا گیا تھا اور یہ سالانہ بنیادوں پر کیے جانے والے اضافے کے عین مطابق ہے جس میں مہنگائی، توانائی پر آنے والی لاگت اور روپے کی قدر میں کمی جیسے محرکات کو مدنظر رکھا گیا۔

یونیورسٹی نے دعویٰ کیا کہ 2020 کے لیے فیسوں میں 13 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

بیان میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ پہلے 12 سے 20 کریڈٹ گھنٹے کے کورسز لینے والے طلبا سے ایک مجموعی فیس لی جاتی تھی لیکن اب فیس فی کریڈٹ گھنٹے کی بنیاد پر وصول کی جائے گی جس کی بدولت کچھ طلبا کے لیے فیسوں میں کمی ہوگی جبکہ کچھ کی فیس میں اضافہ ہو جائے گا۔

البتہ طلبہ نے نشاندہی کی کہ فیسوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہر سیمسٹر میں داخلہ لینے والے طلبا کے لیے 20 کریڈٹ گھنٹوں کی مناسبت سے اضافہ کرنے کے بجائے یونیورسٹی نے 12 کریڈٹ گھنٹوں کی کم از کم حد کو مدنظر رکھا ہے۔

طلبہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ انڈرگریجویٹ ڈگری سسٹم جس انداز سے بنایا گیا ہے اس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر طلبہ بروقت گریجویشن کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ہر سیمسٹر میں 16 کریڈٹ گھنٹے والے کورسز لینا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: لمز کے طالب علموں کے جنسی تعصب پر مبنی خفیہ گروپ کا انکشاف

اس سلسلے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے طلبہ نے کہا کہ اس نئے نظام کے بعد اب 20 کریڈٹ گھنٹوں کے کورسز لینے والے طالبعلم کے لیے فیس 41.7 فیصد اضافے کے ساتھ 3 لاکھ 40 ہزار سے بڑھ کر 4 لاکھ 82 ہزار روپے ہوگئی ہے۔

تاہم انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ سیمسٹر میں 16 کریڈٹ گھنٹے کے کورسز لینے والے طلبہ کے لیے فیس میں 13.3 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کا یونیورسٹی کے بیان میں ذکر بھی کیا گیا ہے۔

لمز نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فی کریڈٹ گھنٹے کی بنیاد پر دیکھا جائے تو گریجویشن کی کُل فیس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔

لمز نے پالیسی میں تبدیلی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حساب کتاب کے اس نئے نظام کا مقصد طلبہ کی زیادہ کورسز لینے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا ہے کیونکہ اس سے ان پر دباؤ پڑتا ہے اور پڑھائی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: لمز کے ہاسٹل سے طالب علم کی لاش برآمد

ادھر ٹوئٹر پر صارفین نے فیسوں میں اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایک صارف نے لکھا کہ وبا اور معاشی کساد بازاری کے دور میں لمز نے ٹیوشن فیس میں 40 فیصد سے زائد اضافہ کردیا ہے۔

لمز میں سوشیولوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ندا کرمانی نے کہا کہ یونیورسٹی طلبا کو مزید مشکلات کا شکار نہیں کرسکتی کیونکہ ان طلبا کے اہلخانہ کو مالی مشکلات کے سبب فیسوں کی ادائیگی میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، امید ہے کہ انتظامیہ اس بات کی وضاحت دے گی کہ یا یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے یا پھر یہ فیصلہ واپس لیا جائے گا۔

یونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے لکھا کہ کریڈٹ گھنٹوں کے نظام سے غریب طلبہ (خصوصاً جو دوسروں سے مدد لیتے ہیں) کا بہت نقصان ہو گا، آپ انفرادی کورسز کی فسس وصول کر کے پڑھائی کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس فیصلے کو فوری واپس لیا جائے۔

لمز کے ایک اور ایسوسی ایٹ پروفیسر عمیر جاوید نے لکھا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان انتہائی غیریقینی حالات میں یونیورسٹی کا فیسوں کے اضافے کے بارے میں سوچنا بھی مضحکہ خیز بات ہے۔

ایک اور طالبعلم نے فیسوں کے نئے نظام کو اپنانے سے قبل طلبہ کو فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ نہ بنانے پر یونیورسٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔