اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
اور اب دنیا بھر میں طبی ماہرین کے لیے اس وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بن گیا ہے جسے سائیلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔
اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔
جریدے سائنس میگزین میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔
حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔
مگر حیران کن طور پر اتنی کمی کے باوجود انہیں اکثر سانس لینے میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا حالانکہ کووڈ 19 کے اکثر سنگین کیسز میں سانس لینے میں دشواری کا مسئلہ لاحق ہوتا ہے
درحقیقت جریدے کے مطابق یہ مریض آکسیجن کی سطح 70، 60، 50 یا اس سے کم ہونے پر بھی معمول کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کے ساتھ آسانی سے سانس لیتے رہتے ہیں۔
ایسا کوہ پیماؤں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے مگر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہے وہ بہت ہی غیرمعمولی مثال ہے، کیونکہ آکسیجن کی سطح میں اتنی کمی کے باوجود مریضوں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا، ایسا کبھی انفلوائنزا یا نمونیا میں دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس پہلو کے حوالے سے متعدد خیالات ظاہر کیے گئے ہیں مگر بیشتر ڈاکٹروں کے خیال میں خون کے ننھے لوتھڑے اس کی وہ وجہ ہوسکتے ہیں۔
برازیل سے پھیپھڑوں کے امراض کی ماہر ایلنارا مرسیا میگری نے جریدے کو بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ بلڈ کلاٹنگ کا عمل بہت جلد پھیپھڑوں میں شروع ہوجاتا ہے جس سے خون مناسب طریقے سے آکسیجن کو جذب نہیں کرپاتا۔
اس طبی معمے نے اس بحث کو بھی جنم دیا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کیسے کیا جانا چاہیے۔
جرمنی کے یونیورسٹی آف گوتھگن میڈیکل سینٹر کے پروفیسر لوسیانو گیتنونی نے خبردار کیا کہ پھپھڑے پھول جانے کا سامنا کرنے والے مریضوں کوو وینٹی لیٹرز یا ہائی پریشر آکسیجن فراہم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے پھیپھڑوں کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے اور مریضوں کو اس سے کوئی مدد نہیں ملتی۔
اس حوالے سے برطانوی روزنامے دی گارڈین کی رپورٹ میں ڈاکٹر مائیک چالس ورتھ نے بتایا کہ پھیپھڑوں کے مختلف مسائئل کے نتیجے میں خون میں آکسیجن کی کمی ہوسکتی ہے مگر عموماً ایسے مریض بہت زیادہ بیمار نظر آتے ہیں ؛ نمونیا یا دیگر مسائل کے نتیجے میں ایسا ہونے پر لوگ بستر سے کھڑے نہیں ہوپاتے یا بات نہیں کرپاتے، مگر ہم یہ سمجھن سے قاصر ہیں، کووڈ 19 کے مریض میں ایسا کیوں نہیں ہوتا، ہم نہیں جانتے کہ اس سے کسی عضو نقصان تو نہیں پہنچ رہا جو ہم پکڑ نہیں پارہے'۔
درحقیقت ڈاکٹر چارلس ورتھ کو خود اس کا تجربہ ہوچکا ہے جب وہ مارچ میں کووٖڈ 19 کے شکار ہوئے، بخار اور کھانسی سے طبیعت خراب ہونے کے بعد انہوں نے 48 گھنٹے بستر پر گزارے، اس دوران ایسی علامات سامنے آئیں کہ خون میں آکسیجن کی کمی ہورہی ہے۔
انہوں نے بتایا میں اپنے فون پر عجیب پیغامات بھیجنے لگا تھا، ہذیانی کیفیت طاری ہوگئی تھی، مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ آکسیجن کی سطح کم ہوچکی ہے اور میری بیوی نے بتایا کہ میرے ہونٹ سیاہی مائل ہوگئے تھے'۔
وہ چند دن میں بہتر ہوگئے مگر انہیں احساس ہے کہ تمام کیسز میں اس طرح کے مثبت نتائج سامنے نہیں آتے۔