دنیا

ٹرمپ انتظامیہ کا چین سے صنعتی درآمدات پر مزید سختی کا منصوبہ

ہمیں ایسا نہیں لگتا ہے کہ چین میں کام کرنے والی کمپنیاں ایک دم سے کام چھوڑکر واپس آئیں گی، ترجمان یوایس چائنا بزنس کونسل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کورونا وائرس کے معاملے پر چین کے خلاف مزید سخت اقدامات کرتے ہوئے صنعتی درآمدات کو روکنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی منصوبہ بندی سے منسلک عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کورونا وائرس سے متعلق چین کے اقدامات پر صنعتی درآمدات روکنے کے لیے ایک منصوبے پر کام کررہی ہے۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے حوالے سے چین پر نئے الزامات لگائے تھے جبکہ ماضی میں معاشی طور پر ٹیرف کا نفاذ کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: ٹرمپ کی چین کو نئے ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی

امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ معاشی تباہی اور امریکا میں کورونا وائرس سے بدترین ہلاکتوں سے امریکا کی پیداوار اور رسد کا انحصار چین سے منتقل ہورہا ہے اور دیگر دوست ممالک کو متبادل کی حیثیت سے منتخب کیا جائے گا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں معاشی نمو، توانائی اور ماحولیات کی انڈر سیکریٹری کیتھ کراچ کا کہنا تھا کہ 'ہم سپلائی چین پر اپنا انحصار چین سے کم کرنے کے لیے کام کررہے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے خیال میں انتہائی اہم شعبوں کی نشان دہی ضروری ہے اور مشکلات کہاں ہیں اس کا معلوم کرنا ضروری ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ معاملہ امریکی سلامتی کے لیے ضروری ہے اور حکومت جلد ہی نئے اقدامات کا اعلان کرسکتی ہے۔

امریکا، محکمہ تجارت، ریاستیں اور دیگر ادارے کمپنیوں کی پیداوار اور ڈھانچے کو چین سے باہر نکالنے کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔

موجودہ اور سابق عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کے پیچھے ٹیکس کی چھوٹ اور سبسڈیز جیسے اقدامات کار فرما ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پوری حکومت اس معاملے پر زور لگا رہی ہے'۔

رپورٹ کے مطابق امریکی ادارے تحقیق کررہے ہیں کہ کن کمپنیوں کو چین سے باہر نکالا جائے اور کس طرح ان اشیا کو تیار کیا جائے۔

ایک اور امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'یہ وقت بہتر آندھی ہے، اس وبا نے پریشانیوں کو واضح کردیا ہے کہ چین کے ساتھ کاروبار کرنے کا تعلق تھا'۔

یہ بھی پڑھیں:چین نے الیکشن میں مداخلت سے متعلق امریکی صدر کا بیان مسترد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ 'لوگ چین کے ساتھ مل کر جتنا پیسہ کمانا چاہتے تھے وہ کما چکے ہیں اور اب کورونا وائرس کے باعث ان کو معاشی دھچکا لگا ہے'۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل کہتے رہے ہیں کہ وہ چین پر نئے ٹیرف نافذ کریں گے اور اس وقت 370 ارب کی چینی اشیا پر 25 فیصد ٹیکس لاگو ہے۔

امریکی کمپنیوں کے لیے مشکل وقت

امریکا کی کئی کمپنیوں نے چین میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور چین کی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد آبادی پر اپنے صارفین کے طور پر انحصار کیے ہوئے ہے۔

یو ایس چائنا بزنس کونسل کے ترجمان ڈوگ بیری کا کہنا تھا کہ 'سپلائی چین میں کمی یا تبدیلی سے واضح ہوجائے گا کہ وبا نے خطرات کو آشکار کردیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ایسا نہیں لگتا ہے کہ چین میں کام کرنے والی کمپنیاں ایک دم سے کام چھوڑ کر واپس آئیں گی'۔

یوایس چیمبر آف کامرس کے انٹرنیشنل پالیسی کے نائب صدر جان مرفی کا کہنا تھا کہ امریکی کمپنیاں اس وقت 70 فیصد ادویات کی طلب کو پورا کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا میں نئی صنعت کی تعمیر میں 5 سے 8 سال لگیں گے اور 'ہمیں تشویش ہے کہ عہدیداروں کو متبادل ڈھونڈنے سے قبل درست معلومات کی ضرورت ہے'۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو روز قبل ہی چین پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات دہراتے ہوئے نئے ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: امریکا، چین میں لفظوں کی جنگ شدت اختیار کرگئی

امریکی عہدیداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین کے خلاف کئی اقدامات زیر بحث ہیں تاہم انہوں نے پہلے مرحلے میں طے کئے گئے اقدامات ظاہر کرنے سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تجاویز ٹرمپ کی قومی سلامتی امور کی ٹیم اور خود صدر کی سطح پر طے نہیں ہوئی ہیں۔

چین پر نئی معاشی پابندیوں سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'چین کو روکنے اور بری طرح نشانہ کیسے بنایا جائے، اس پر بات ہورہی ہے' جبکہ چین سے پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹ (پی پی ایز) کی درآمد کے باوجود واشنگٹن اپنے تعلقات میں سختی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

ٹرمپ یہ واضح کرچکے ہیں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کے کردار پر انہیں تحفظات ہیں اور چین کے ساتھ معاشی معاہدوں پر یہ بات اولین ترجیح ہوگی۔

امریکی صدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم نے ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت انہوں نے زیادہ برآمد کرنا تھا اور وہ کررہے ہیں لیکن اب وائرس کے بعد یہ بات ثانوی ہوگئی ہے کیونکہ وائرس کی صورت حال ناقابل قبول ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:چین اور امریکا کے درمیان کورونا وائرس کے حوالے سے لفظی جنگ میں تیزی

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل چین پر الزام عائد کیا تھا کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں میری شکست کے لیے چین ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ چین سے جو کچھ بن سکا وہ میری شکست کے لیے کرے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین چاہتا ہے کہ ان کا سیاسی حریف کامیاب ہو تاکہ جو دباؤ چین پر میں نے ڈالا وہ دور کیا جا سکے۔

چین کے خلاف مختلف اقدامات کی دھمکی دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کے تناظر میں دیگر آپشنز پر بھی غور کررہا ہوں اور ’میں بہت کچھ کر سکتا ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ کیے گئے ان کے معاہدے، وائرس سے سامنے آنے والے معاشی نقصانات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’لفظی جنگ کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کے درمیان مارچ کے آخر میں ایک فون کال پر غیر رسمی معاہدہ ہوا تھا جو اب لگتا ہے کہ ختم ہوگیا ہے۔

شہباز شریف کے جوابات سے نیب غیر مطمئن، 2 جون کو دوبارہ طلب کرلیا

کورونا وائرس: چین کا اینیمیٹڈ ویڈیو کے ذریعے امریکا کا مذاق

ہم لاک ڈاؤن آہستہ آہستہ کھول رہے ہیں، وزیراعظم