ووہان کی لیبارٹری میں وائرس کی تیاری کے کافی شواہد ہیں، پومپیو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد اب امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان پاس اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ کورونا وائرس کو چین کے شہر ووہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔
مائیک پومپیو نے 'اے بی سی دس' ویک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ اس وائرس نے وہیں جنم لیا۔
مزید پڑھیں: ایران میں کورونا سے ہلاکتوں میں کمی، متعدد مساجد کھولنے کا فیصلہ
انہوں نے چین میں غیر معیاری لیبارٹریز کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ دنیا کو چین کی لیب میں ناکامیوں کے نتیجے میں وائرس کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
البتہ چین پر کڑی تنقید کے باوجود بھی انہوں نے یہ کہنے سے انکار کردیا کہ چین نے جان بوجھ کر اس وائرس کو پھیلایا۔
جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ شواہد دیکھ چکے ہیں جن کے مطابق کورونا وائرس چین کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چین سے کورونا وائرس کے نقصانات کا ہرجانہ طلب کرسکتے ہیں، ٹرمپ
جب امریکی صدر سے سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ شواہد دیکھ چکے ہیں جس کے بعد انہیں یقین ہے کہ یہ وائرس ووہان انسٹیٹیوٹ آف ویرولوجی سے آیا ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہاں، میں دیکھ چکا ہوں۔
جب ان سے اس کی تفصیلات پوچھی گئیں تو انہوں نے بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا، مجھے آپ کو یہ بتانے کی اجازت نہیں ہے۔
تاہم دلچسپ امر یہ کہ ٹرمپ کے بیان کے بعد جب پومپیو سے اس دعوے کی حقیقت کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ بات معلوم نہیں کہ وائرس لیب سے آیا ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں: چین حساس لیبارٹریز کی انسپیکشن کی اجازت دے، امریکا کا مطالبہ
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ووہان انسٹیٹیوٹ آف ویرولوجی میں بنا ہے یا نہیں، ہمیں نہیں پتہ یہ مارکیٹ سے پھیلا یا کسی اور مقام سے، ہمارے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں۔
ادھر چین کے ووہان انسٹیٹیوٹ آف ویرولوجی نے ان تمام تر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں من گھڑت اور بکواس قرار دیا ہے۔
اکثر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ وائرس چین کے شہر ووہان میں ایک جانوروں کی مارکیٹ سے پھیلا اور یہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا ہم نے تیار نہیں کیا مگر اس طرح کے وائرس پر تحقیق ضرور کرتے ہیں، ووہان لیب
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے چین اور امریکی حکومت کے درمیان ایک عرصے سے تناؤ جاری ہے جہاں دونوں ہی ملک ایک دوسرے کو وائرس کے پھیلاؤ کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔
چین نے الزام عائد کیا تھا کہ شاید چین میں امریکی فوج وائرس لے کر آئی ہو جبکہ امریکا نے کہا تھا کہ عین ممکن ہے کہ چین نے وائرس کو جان بوجھ کر پھیلنے دیا ہو۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ چین نے بروقت اور شفاف انداز میں دنیا کو وائرس کے خطرے سے آگاہ نہیں کیا اور وہ وائرس سے امریکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا ہرجانہ چین سے طلب کریں گے۔
مزید پڑھیں: کورونا لیبارٹری میں تیار ہوا؟ امریکی خفیہ ایجنسیوں نے تحقیق شروع کردی
صرف یہی نہیں بلکہ امریکی صدر نے عالمی ادارہ صحت پر بھی چین کے حوالے سے جانبدار رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکا کی جانب سے عالمی ادارے کو دی جانے والی امداد روک دی تھی۔
کورونا وائرس کا آغاز چین کے شہر ووہان سے ہوا تھا جس کے نتیجے میں چین میں ساڑھے 4 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 80 ہزار سے زائد متاثر ہوئے تھے۔
چین نے سخت لاک ڈاؤن کی بدولت اس وائرس پر جلد قابو پا لیا لیکن اس کے بعد یہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکا میں تیزی سے پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔
اب تک کورونا وائرس دنیا کے 200 سے زائد ملکوں، علاقوں اور خطوں میں پھیلا چکا ہے جس سے 2 لاکھ 45 ہزار 531 افراد ہلاک اور 34 لاکھ 76 ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: امریکا، چین میں لفظوں کی جنگ شدت اختیار کرگئی
وائرس سے سب سے زیادہ امریکا متاثر ہوا ہے جہاں اب تک 60 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں جبکہ 11 لاکھ سے زائد میں وائرس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔
یورپی ممالک بھی وائرس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور یورپ میں بھی ایک لاکھ سے زائد افراد وائرس کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن چکے ہیں۔