دنیا

اسلحے پر پابندی میں توسیع کی گئی تو جوہری معاہدہ ختم کردیں گے، ایران

یہ پابندی امریکا کی اپنی کمزور ہوتی بالادستی کو طول دینے کیلئےہتھیار ہے،کیا یورپی ممالک تذلیل کو قبول کریں گے،علی شمخانی

ایران نے خبردار کیا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی اسلحے پر پابندی میں مزید توسیع کی گئی تو سلامتی کونسل کی منظوری سے 2015 میں کیا گیا معاہدہ ختم کردیا جائے گا۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل (ایس این ایس سی) کے سیکریٹری علی شمخانی نے ایران پر طویل عرصے سے عائد اسلحے کی پابندی سے متعلق امریکا کی حالیہ کوششوں پر خبردار کیا ہے۔

علی شمخانی نے اقوام متحدہ کی پابندی کے خاتمے سے چند روز قبل ہی اپنےمؤقف سے آگاہ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی صدر کا ایران پر فوری طور پر اضافی پابندیاں لگانے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ 'ایران پرغیر قانونی ہتھیاروں کی شق کے تحت عائد پابندی میں توسیع کردی گئی تو جوہری معاہدہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'پابندی کا وائرس امریکا کا اپنی کمزور ہوتی عنانیت کو طول دینے کا ایک ہتھیار ہے'۔

یورپی یونین کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ 'یورپی یونین کیا کرے گی، آیا وہ خود داری کا تحفظ اور اشتراک کے لیے تعاون کرے گی یا تذلیل کو قبول کرے اور مطلق العنانی کی مدد کرے گی'۔

یاد رہے کہ ایران پر 2006/2007 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت اسلحے پر پابندی عائد ہے جو اکتوبر 2020 میں ختم ہوجائے گی، اسی شق کے تحت جوہری معاہدہ بھی کیا گیا تھا۔

دوسری جانب امریکا کہنا تھا کہ پابندی میں توسیع کے لیے قرار داد پیش کی جائے گی، امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل تھے۔

ایران پر پابندی میں توسیع کے لیے 9 ووٹ درکار ہیں جبکہ امریکا، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے پاس اس قرار داد کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ روس اور چین اس قرار داد کو ناکام بنادیں گے جو ایران کے ساتھ معاہدے کی پاسداری پر زور دیتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:امریکا نے ایران کے 8 اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی کا اعلان کردیا

اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیداروں کی جانب سے پابندی میں توسیع کا مطالبہ کوئی قانونی جواز نہیں رکھتا اور امریکا کا جوہری معاہدے کے شراکت دار کا دعویٰ ایک مذاق ہے۔

دوسری جانب روسی نمائندے نے امریکی منصوبے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'امریکی عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ امریکا کو قرارداد 2231 کے تحت حق حاصل ہے لیکن جو حقوق مشترکہ ہیں ان کی پاسداری پر ایک لفظ نہیں بولا جارہا ہے'۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ کیے معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر مزید معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

رواں برس جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حکومت پر فوری طور پر اضافی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا۔

عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر ایران کے حملے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی افواج کسی بھی قسم کے حالات کے لیے تیار ہیں اور ایران پستی کی جانب جا رہا ہے جو تمام متعلقہ فریقین اور دنیا کے لیے خوشی کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ 'ایران دنیا میں دہشت گردی کی معاونت کرتا رہا ہے اور مہذب دنیا کو خوف زدہ کرتا رہا ہے، قومیں ایران کا مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کا رویہ طویل عرصے سے برداشت کرتی رہی ہیں تاہم اب ایران کو ایسا کچھ نہیں کرنے دیں گے'۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حکومت پر فوری طور پر اضافی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ایران نے حالیہ دنوں میں بین الاقوامی پانیوں میں تیل کے جہازوں پر حملے کیے، سعودی عرب میں بلااشتعال حملے کیے اور 2 امریکی ڈرون بھی تباہ کیے، تہران نے جوہری معاہدے کے بعد یمن، شام، لبنان، افغانستان اور عراق میں تباہی مچائی تاہم اب معاملہ برداشت سے باہر ہو چکا تھا اور اب دنیا ایران کو پیغام دے گی کہ اس کی دہشت گردی اب قبول نہیں کی جائے گی۔'

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے کیسز 35 لاکھ سے تجاوز کرگئے

لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد سعودی خواتین کی ملازمت پر واپسی

نئے کورونا وائرس کی وہ ممکنہ علامات جن کو لوگ نظرانداز کردیتے ہیں