'پاکستان بھر میں کورونا سے 38 صحافی متاثر، 2 جاں بحق'
دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی کورونا وابرس کی وبا سے جہاں 3 مئی کی دوپہر تک دنیا بھر میں 35 لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوچکے تھے، وہیں دنیا بھر میں درجنوں صحافی بھی اس وبا کا شکار بن چکے تھے۔
امریکا، برطانیہ و بھارت کی طرح پاکستانی صحافی بھی کورونا کا شکار بن رہے ہیں اور 3 مئی تک پاکستان بھر میں کم از کم 38 صحافیوں میں کورونا کی تصدیق ہوچکی تھی جب کہ 2 صحافی اس کے باعث زندگی کی بازی بھی ہار چکے تھے۔
ملک میں آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پاکستان پریس فاؤنڈیشن ( پی پی ایف) کی (میڈیا سیفٹی اینڈ پریس فریڈم ان پاکستان 2019 -2020) رپورٹ کے مطابق ملک میں 38 صحافیوں میں کورونا کی تصدیق ہوچکی تھی۔
پی پی ایف کی جانب سے 40 صفحات پر مبنی رپورٹ کو 2 حصوں میں شائع کیا گیا ہے، رپورٹ کا پہلا اور اہم حصہ کورونا کی وبا کے دوران میڈیا ورکرز کو درپیش مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا کے باعث سینئر صحافی ظفر رشید بھٹی کا انتقال
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں یکم مئی تک 38 صحافیوں میں کورونا کی تصدیق ہو چکی تھی جب کہ اس وبا سے 2 صحافیوں کی موت بھی ہوچکی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں کورونا سے مبتلا صحافیوں کی اصل تعداد 38 سے زائد ہو سکتی ہے، کیوں کہ حکومت سمیت صحافتی اداروں کی جانب سے ڈیٹا کی شفاف فراہمی نہیں کی جا رہی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کے باعث ہی 27 اپریل کو پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سمیت دیگر صحافتی اداروں میں خدمات سر انجام دینے والے سینیئر صحافی ظفر رشید بھٹی کورونا کے باعث چل بسے۔
رپورٹ کے مطابق 30 اپریل کو، روزنامہ خبریں کے کرائم رپورٹر محمد انور بھی سندھ کے شہر سکھر میں کورونا کے باعث انتقال کر کئے۔
پی پی ایف کی رپورٹ میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) سلمان اقبال کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انہوں نے اپنے ٹی وی چینل کے اسلام آباد کے دفتر میں 8 ارکان میں کورونا کی تشخیص کے بعد دفتر کو عارضی طور پر بند کردیا۔
مزید پڑھیں: ملک میں صحافی بھی کورونا وائرس کا شکار ہونے لگے
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اے آر وائی کے سی ای او نے ارکان میں کورونا کی تشخیص کے بعد دیگر ارکان کے ٹیسٹ بھی کروائے اور مجموعی طور پر ٹی وی چینل کے 20 ارکان میں کورونا کی تشخیص ہوئی۔
اسی طرح پشاور سے تعلق رکھنے والے 2 صحافی بھائیوں میں بھی کورونا کی تصدیق ہوئی جب کہ لاہور اور کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی صحافی کورونا کا شکار ہوئے۔
اسلام آباد میں ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی پی) کے بھی ایک صحافی میں کورونا کی تشخیص ہوئی تو اے پی پی کے دفتر کو عارضی طور پر بند کرکے دوسرے ارکان کےٹیسٹ بھی کروائے گئے۔
پی پی ایف کی رپورٹ میں صحافتی خدمات دینے والے افراد کی حفاظت کے لیے اقدامات نہ اٹھائے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ میڈیا کارکنان میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کی شرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ میڈیا کارکنان کو وائرس سے بچاؤ کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جاسکے ہیں۔
رپورٹ میں صحافتی اداروں، صحافتی تنظیموں اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ میڈیا کارکنان کی حفاظت کے لیے انہیں ذاتی تحفظ کے آلات و لباس پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپمنٹ (پی پی ای) فراہم کرنے کے اقدامات کریں۔
رپورٹ میں حکومت کی جانب سے صحافیوں کو حفاٖظتی لباس فراہم کرنے کے اعلان کا بھی ذکر کیا گیا ہے، تاہم حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ اپنے اعلانات پر عمل کرنے سمیت صحافتی اداروں کو بھی اس بات کا پابند بنائے کہ وہ میڈیا ارکان کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور کے دو صحافی بھائی کورونا میں مبتلا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت ملک کی کسی بھی میڈیا تنظیم نے جیسےکہ پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز (سی پی این ای) کی جانب سے کوئی واضح رہنمائی نہیں دی گئی ہے کہ میڈیا ادارے اور کارکنان اس وبا کی کوریج کے دوران اپنی حفاظت کے لیے کیا تدابیر اختیار کریں۔
تنظیم کی جانب سے میڈیا تنظیموں اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ میڈیا کو ضروری ساز وسامان میسر ہوں اور تمام احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
پی پی ایف کی مذکورہ رپورٹ کے دوسرے حصے میں ملک میں میڈیا پر لگائی جانے والی بے جا پابندیوں، صحافیوں کے قتل، انہیں تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور سوشل میڈیا کو قید کرنے جیسے اہم معاملات پر بات کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران میڈیا کی آزادی پر مزید قدغنیں لگائی گئیں۔
خیال رہے کہ پاکستان بھر میں 3 مئی کی سہ پہر تک کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 19854 تک پہنچی تھی جب کہ اموات کی تعداد بھی بڑھ کر 446 تک جا پہنچی تھی۔
پاکستان میں سب سے زیادہ مریض پنجاب، دوسرے نمبر پر سندھ میں ہیں، مریضوں کے حوالے سے تیسرے نمبر پر خیبرپختونخوا ہے جب کہ چوتھے نمبر پر بلوچستان ہے۔
دارالحکومت اسلام آباد مریضوں کے حوالے سے گلگت بلستان سے بھی آگے ہے جب کہ سب سے کم مریض آزاد کشمیر میں ہیں۔