جمعے کو ایف ڈی اے کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا، اگرچہ ابھی اس دوا کے محفوظ ہونے یا افادیت کے لیے حوالے سے معلومات محدود ہے مگر رواں ہفتے ایک کلینیکل ٹرائل میں دریافت کیا گیا تھا کہ اس کے استعمال سے کچھ مریضوں کی صحتیابی کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔
ریمیڈیسیور ایک تجرباتی اینٹی وائرل دوا ہے جسے امریکی کمپنی گیلاڈ سائنسز نے ایبولا کے مریضوں کے لیے تیار کیا گیا مگر اب اسے کوورنا وائرس کے مریضوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس دوا کو طبی ماہرین ایسے مریضوں کو استعمال کرارہے ہیں جن کے خون یں آکسیجن کی سطح گر جاتی ہے اور آکسیجن تھراپی یا وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔
بدھ کو یوایس نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشز ڈیزیز نے ایک امریکی کلینیکل ٹرائل کے حوالے سے بتایا تھا کہ یہ دوا واضح طور پر کووڈ 19 کے علاج کے لیے بہگتر ثابت ہوئی ہے اور اس سے مریضوں کو تیزی سے صحتیاب ہونے میں مدد ملی۔
اس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا تھا کہ ابتدائی نتائج اہم ثبوت ہیں کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دوا وائرس کو بلاک کرسکتی ہے۔
اس ٹرائل میں ایک ہزار مریضوں کو شامل کی گیا تھا جن میں ریکوری کی رفتار 31 فیصد تیز ہوئی اور اموات کی شرح معمولی حد تک کم ہوگئی۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ دوا ایبولا کے لیے تیار کی گئی تھی مگر ٹرائلز میں اس کے مریضوں میں ناکام ثابت ہوئی تاہم 2017 کی ایک تحقیق میں ثابت ہوا کہ یہ انسانی کورونا وائرسز کے خلاف موثر ہے۔
گیلاڈ سائنز کا کہنا ہے کہ امریکی وفاقی حکومت فیصلہ کرے گی کہ اس دوا کی کس کو زیادہ ضرورت ہے کیونکہ فی الحال اس کی سپلائی محدود ہے۔
کمپنی کا کہنا تھا 'ہم امریکی حکومت کے ساتھ دوا کی تقسیم کے لیے کام کررہے ہیں'۔
کمپنی کے سی ای او ڈینیئل او ڈے نے ایک ای میل بیان میں کہا 'ہم بین الاقوامی سطح پر اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر دوا کی سپلائی کو بڑھائیں گے جبکہ دوا کی افادیت کے حوالے سے جاری کلینیکل ٹرائلز کو مزید آگے بڑھائیں گے'۔
ریمیڈیسیور پر دنیا بھر میں کووڈ 19 کے مریضوں پر متعدد ٹرائلز ہورہے ہیں اور دیگر ادویات کے مقابلے میں اسے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریمیڈیسیور کے حوالے سے چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں اس کے اثرات کو دیگر ادویات کے مقابلے میں زیادہ مفید قرار نہیں دیا گیا تھا۔
چین میں ہونے والی تحقیق کو مریضوں کی کمی کے باعث ابتدائی مرحلے میں روک دیا گیا تھا اور اسی وجہ سے نتائج کو بھی دیگر طبی ماہرین نے نامکمل قرار دیا تھا۔
کووڈ 19 کے خلاف موثر علاج ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا کیونکہ ابھی کووڈ 19 کے مریضوں پر ایسی ادویات کی آزمائش ہورہی ہے جن کی منظوری نہیں دی گئی۔
ریمیڈیسیور کو انجیکشن کے ذریعے دیا جاتا ہے اور اب تک ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں پر آزمایا گیا اور اسے حفاظتی طریقہ علاج یا معتدل علامات والے مریضوں کی مدد کے لیے آزمایا نہیں گیا۔
اپریل کے وسط میں شکاگو کے ایک ہسپتال میں اس دوا کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے تھے۔
یونیورسٹی آف شکاگو میڈیسین میں کووڈ 19 کے 125 مریضوں کو دوا ساز کمپنی کی کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں شامل کیا گیا تھا۔
125 میں سے 113 افراد میں بیماری کی شدت زیادہ تھی اور ان سب مریضوں کے علاج کے لیے ریمیڈیسیور سیال کو انجیکشن کے ذریعے روزانہ جسم میں انجیکٹ کیا گیا۔
شکاگو یونیورسٹی کی وبائی امراض کی ماہر اور اس تجرباتی دوا کی تحقیق کی نگرانی کرنے والی ڈاکٹر کیتھلین مولین نے بتایا 'بہترین خبر یہ ہے کہ ہمارے بیشتر مریض اب ڈسچارج ہوچکے ہیں، اب صرف 2 مریض باقی رہ گئے ہیں'۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال سے مریضوں کے بخار اور نظام تنفس کی علامات بہت جلد ختم ہوگئیں اور ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں تمام مریضوں کو صحتیاب قرار دے کر ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔
ڈاکٹر کیتھلین نے کوئی واضح نتیجہ بیان کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا 'یہ بہت مشکل ہے، کیونکہ اس تحقیق میں دیگر ادویات کا استعمال کرنے والے گروپ کا موازنہ نہیں کیا گیا، مگر جب ہم نے دوا کا استعمال شروع کیا، تو ہم نے دیکھا کہ بخار کی شدت میں کمی آنے لگی، ہم نے دیکھا جب مریض شدید بخار کے ساتھ آتے تو اس دوا سے اس میں فوری کمی آتی، ہم نے لوگوں کو علاج کے ایک دن بعد ہی وینٹی لیٹرز سے باہر آتے دیکھا، تو مجموعی طور پر ہمارے مریضوں پر اس دوا نے بہت اچھا کام کیا'۔
ان کا کہنا تھا 'ہمارے بیشتر مریضوں میں بیماری کی شدت بہت زیادہ تھی اور ان میں سے بیشتر 6 دن میں ڈسچارج بھی ہوگئے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ علاج کا دورانیہ 10 دن نہیں تھا، بہت کم مریض یعنی شاید 3 افراد ایسے تھے جن کو 10 دن میں ڈسچارج کیا گیا'۔
گیلاڈ کی سنگین کیسز پر دنیا بھر میں 152 مختلف کلینکل ٹرائلز میں 24 سو مریضوں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ 169 مختلف مراکز میں 16 سو معتدل مریضوں پر الگ ٹرائلز پر کام ہورہا ہے۔
ان ٹرائلز میں دوا سے 5 اور 10 روزہ علاج کے کورسز پر تحقیقات کی جارہی ہے اور بنیادی مقصد یہ دیکھنا ہے کہ مریضوں کے لیے دونوں کورسز میں سے زیادہ موثر کونسا ہے۔
اس سے قبل 10 اپریل کو جریدے نیو انگلینڈ جنرل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں اس دوا کا استعمال مریضوں کے ایک چھوٹے گروپ میں کیا گیا اور ان میں سے ایک اکثریت کی حالت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔
تحقیق میں 53 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کا تعلق امریکا، یورپ اور برطانیہ سے تھا اور حالت خراب ہونے پر ان میں سے 50 فیصد کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا جبکہ 4 کو ہارٹ۔لنک بائی پاس مشین سے منسل کیا گیا تھا۔
ان سب مریضوں کو 10 دن تک اس دوا کا استعمال کرایا گیا اور 18 دن میں 68 فیصد کی حالت میں بہتری آگئی اور جسم میں آکسیجن کی سطح میں اضافہ ہوا۔
30 میں سے 17 افراد جو وینٹی لیٹر پر تھے، وہ لائف سپورٹ مشینوں سے نکلنے کے قابل ہوگئے، جبکہ تحقیق میں شامل 50 فیصد کے قریب افراد صحتیاب ہونے کے بعد ڈسچارج ہوگئے مگر 13 فیصد ہلاک ہوگئے۔
اموات کی شرح ان میں زیادہ تھی جو وینٹی لیٹر پر تھے، جن میں سے 18 فیصد کا انقال ہوا۔