منچھر جھیل: جو نہ پوری طرح زندہ ہے اور نہ مر رہی ہے!
منچھر جھیل: جو نہ پوری طرح زندہ ہے اور نہ مر رہی ہے!
کبھی کبھی میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ میری تقریباً ساری تحریریں ویرانیوں، بربادیوں اور دکھوں کی بستیوں پر ہی کیوں ہوتی ہیں؟ ان لوگوں پر کیوں ہوتی ہیں جن کو طبقاتی نظام نے بغیر کسی جرم غربت کی چکی میں پس دیا۔
سوچتا ہوں کہ آم کے وہ درخت کچھ روپوں کے لیے کیوں کاٹ دیے جاتے ہیں جہاں برسوں اور نسلوں سے ان طوطوں کا مسکن تھا جو ان میں رہنے کے لیے اپنی شہد جیسی میٹھی زبان میں گاتے ہیں اور اپنے فطری رنگ لیے نیلے آسمان پر اڑتے ہیں کہ فطرت نے انسان کو اپنی عنایتں دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
اس کیکر کے جنگل کا کیا قصور جن میں ہزاروں فاختائیں اپنے کمزور سے گھونسلے بناکر، تیز جھکڑوں کے دنوں میں انڈے دیتی ہیں کہ فطرت کے توازن کو قائم رکھ سکیں۔ ان جیسے ہزاروں درد کی کیفیتیں ہیں جن کے گھنے جنگلوں میں ہم رہتے ہیں۔
یہ سوال جب دل و دماغ کی گہرائیوں میں جنم لیتا ہے تو مجھے ہر دفعہ یہی جواب ملتا ہے کہ ’سروم دکھم دکھم‘ مطلب جیون دکھ ہی دکھ ہے۔ مگر دکھ کیا ہے؟ ہمیں کب محسوس ہوتا ہے کہ یہ دکھ ہے؟ اور یہ تب بھی کہیں گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے جب آپ بہت خوش ہوتے ہیں۔ جب آپ جہاں دیکھیں حدِ نگاہ تک آپ کو پھول ہی پھول کھلے نظر آتے ہوں۔ جب تپتی دوپہروں میں ماں لوری دے کر سلاتی ہو۔ اس لوری اور ماں کی شفقت بھرے ہاتھوں کا لمس جو آپ اپنے ماتھے پر محسوس کرتے ہیں جس میں پیار و سکون کی ایک دنیا بھری ہوتی ہے۔ اصل میں اس لوری اور اس لمس کے وجود میں کہیں دُور دکھ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ بچپن جب گزر جائے گا، ماں کے گھنے درخت جیسے وجود پر جب فطرت کا قانون عمل کرے گا اور یہ گھنی چھاؤں کا پیڑ کٹ جائے گا تو وہ تپتی دوپہر، ماں کی گائی ہوئی لوری اور وہ ہاتھ کا لمس آپ کو زندگی کی آخری ہچکی تک رُلاتا رہے گا اس لیے دکھ نہ سکھ سے الگ ہے نہ سکھ دکھ سے جدا ہے۔
میں جب گیسٹ ہاؤس سے نکلا تو سیہون کی گلیوں میں رش تھا مگر عام دنوں کے مقابلے میں بہت کم۔ کورونا وبا کے یہ ابتدائی دن تھے۔ ہم دھمال چوک سے مغرب کی طرف چل پڑے، آپ جیسے ہی نیشنل ہائی وے 55 کو کراس کرکے مغرب کی طرف سفر کرتے ہیں تو آپ کو کھیت تو نظر آتے ہیں، مگر اجڑے اجڑے اور ویران۔ کچھ چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں جو آپ کو مٹی کے ٹیلوں پر سانس لیتی نظر آئیں گی۔ آپ ان کو منچھر کے قدیم کناروں پر بسی بستیاں بھی پکار سکتے ہیں۔ راستے پر چلتے دونوں اطراف زمین کسی وقت میں زرخیز نظر آتی تھی جس کو منچھر کا پانی آباد کرتا تھا۔
مگر اب ان زمینوں میں پانی کی شدید کمی ہے اور سیم و تھور ہے، جس کی وجہ سے زمینیں ویران پڑی ہیں۔ ایک دو چھوٹے اور پسماندہ گاؤں ہمارے راستے میں آئے اور پھر وہ لمبی دیوار آئی جس کو ’بوبک بند‘ کہتے ہیں۔
سامنے پانی کا ایک لا متناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا جس کو کسی زمانے میں ’ایشیا کی میٹھے پانی کی بڑی جھیل‘ کا خطاب دیا جاتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ پانی کے حوالے سے اب بھی بڑی ہو مگر میٹھے پانی کی حوالے سے نہیں کیونکہ پینے لائق میٹھے پانی کا پی پی ایم لیول 700 سے ایک ہزار تک ہوتا ہے اور زراعت کے لیے اگر 1500 پی پی ایم ہوجائے تب بھی کام چل سکتا ہے۔ مگر اب جھیل کے پانی میں مٹھاس کی جگہ کڑواہٹ بھری ہے۔ پانی کی سراسری لیول 3500 پی پی ایم ہے اور گرمیوں میں یا بارشوں سے پہلے یہ 4 ہزار پی پی ایم سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔
جس کشتی میں ہم کو جھیل میں جانا تھا وہ ابھی نہیں آئی تھی اس لیے ہم کنارے پر انتظار کے لمحات گزارنے لگے۔ میرے ساتھ مصطفیٰ میرانی تھے، جن کا بنیادی تعلق اسی علاقے سے ہے لیکن آج کل جامشورو میں رہتے ہیں۔
میں نے گزرے دنوں سے متعلق ان سے پوچھا کہ ایک وہ منچھر جو انہوں نے دیکھی اور ایک وہ منچھر جو ان کے بڑوں نے دیکھی، ان دونوں میں کتنا فرق ہے؟
’اس وقت آپ جس منچھر کو دیکھ رہے ہیں اس میں گزرے زمانوں کے منچھر کی کوئی نشانی باقی نہیں بچی۔ اس جھیل کو اس حالت میں دیکھ کر سب سے زیادہ تکلیف ہمیں ہوتی ہے کیونکہ جس جگہ سے آپ کو روزی روٹی ملے وہ جگہ محترم ہوتی ہے۔ ہم ماہی گیر سب سے زیادہ عزت پانی کی اور اس کی سطح پر چلنے والی کشتی کی کرتے ہیں، کیونکہ یہ دونوں ہمیں خوراک کی صورت میں زندگی دیتے ہیں۔ یہ جھیل جو 250 مربع کلومیٹرز پر پھیلی ہوئی ہے، گزرے دنوں میں اس کی سطح پر ایک کائنات بستی تھی۔ 600 سے بھی زائد کشتیاں تھیں جو اس جھیل پر تیرتی تھیں۔
'کچھ ماہی گیروں کی کناروں پر آبادیاں تھیں اور سیکڑوں خاندان تھے جو رہتے ہی کشتیوں میں تھے۔ بلکہ کشتیوں پر تیرتے گاؤں آباد تھے۔ جنم لینے سے سانس کی ڈوری ٹوٹنے تک وہ کشتیوں پر ہی رہتے۔ محمد عمر شیخ کا بھی ایک گاؤں تھا جس میں 60 کشتیاں تھیں یعنی 60 خاندان تھے۔ ان کے خاندان میں سے اب بھی محمد یوسف شیخ کا ایک گاؤں موجود ہے جو انہی کشتیوں پر رہتے ہیں۔ گزرے زمانوں میں ایسے تقریباً 10 گاؤں تو ضرور تھے۔ کشتیوں پر فقط گھر نہیں ہوتے تھے بلکہ پرچون کی دکان، درزی کی دکان، کپڑوں کی دکان تک تھی۔ کپڑے کی دکان حاجی محمد صدیق کی تھی۔ انہوں نے تو پانی کے جہاز پر مکہ جاکر ایک دو حج بھی کیے تھے اس لیے انہیں حاجی کہتے تھے۔ ان کی وفات 80 برس کی عمر میں مدینہ شریف میں ہوئی۔
'ایک میاں بیوی کا جوڑا تھا، ذات کے ملاح تھے اور وہ کشتی پر مٹی کے برتن بیچنے آتے۔ میاں کا نام پاتنی ملاح اور بیوی کا نام فاطمہ تھا۔ وہ برتن تو بیچتے تھے، مگر جب بات کرتے تو لہجے میں شفقت، نرمی اور پیار ایسے بہتا جیسے بارشوں کے موسم میں جھرنے بہتے ہیں۔ میں کوشش بھی کروں تو ان دنوں کی مٹھاس، ٹھنڈک اور لذت آپ تک نہیں پہنچا سکتا۔ دیکھیں سب سے اہم جس کے لیے ہم ہر وقت دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے ہیں وہ ہے 2 وقت کی روٹی۔ اگر وہ آپ کو وقت پر عزت سے مل جائے تو اس کے بعد آپ دوسری باتیں سوچتے ہیں۔ اگر پیٹ بھرا ہو، بچے بھی خوش ہیں تو پھر ترنگ میں آکر سیٹی بجانے کا بھی جی چاہتا ہے۔ گانے کو بھی جی چاہتا ہے۔ میلے ملاکھڑے بھی تب ہی اچھے لگیں گے۔
'یہ ان دنوں کی بات ہے جب منچھر نے اپنی دین میں کسی کو بھوکا نہیں رکھا۔ مچھلی سے تو منچھر کی گود ہر وقت بھری رہتی، مقامی پرندوں کے علاوہ جب سردیوں کا موسم آتا تو تاحدِ نظر شمال کے ٹھنڈے علاقوں سے آئے پرندوں کی ڈاریں اور پانی پر تیرتے پرندے نظر آتے اور ان کا شکار کرنے کے لیے طرح طرح کے طریقے آزماتے لوگ۔ تاج صحرائی صاحب نے اس جھیل اور اس علاقے پر بڑا تحقیقی کام کیا تھا اور ’بوبک‘ اور ’بھان‘ ریلوے اسٹیشن سے یہاں کی مچھلی روزانہ ہزار منوں کے حساب سے ملک کے دُور دراز شہروں تک جاتی تھی مگر اب گزرے زمانوں کی صرف باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ جن کو یاد کرکے اچھا لگتا ہے۔ آج جب اس اجڑی منچھر کو دیکھتے ہیں تو درد کی پھانس دل میں چُبھ جاتی ہے کہ یہ جھیل ہماری آنکھوں کے سامنے مر رہی ہے۔‘
میرانی صاحب روئے تو نہیں مگر آخری الفاظ میں آواز رُندھ سی گئی تھی اور الفاظ میں دراڑیں پڑنے لگی تھیں۔
منچھر کی خوبصورتی کا ایک اور بھی قصہ ہے۔ ہمارے ساتھی محمد علی میمن صاحب جو سیہون کے ہیں وہ بولے ’بنیادی طور پر جھیل میں جو ویجیٹیشن تھی وہی مرکزی نقطہ تھا اس ساری خوبصورتی کا۔ پن (Reeds) بہت تھی یہاں، جس کی وجہ سے جنگلی حیات کو تحفظ ملتا تھا، کیونکہ بہت سارے پرندے اسی میں اپنے گھونسلے بنا کر رہتے ہیں۔ بہت سارے پرندے اس کے پتوں کے اوپر تہہ جما کر اس پر اپنے انڈے دیتے ہیں۔ ان کی جڑیں مچھلی کی بہترین خوراک ہے۔ پھر گھروں کے لیے جو چھپرے بنتے ہیں اس میں بھی یہ کام آتی ہے اور اس سے پیلے رنگ کا پاؤڈر ملتا ہے، جس کو بھاپ پر پکا کر کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کنول کے پھول اور اس کے بڑے تھال کی طرح بچھے ہوئے گول ہرے پتے، جس پر چھوٹے چھوٹے پرندے چلتے پھرتے تھے۔ جھیلوں کے پانیوں کے اندر یا باہر جو چیزیں اگتی ہیں، جیسے کنول، Lotus Roots (جسے مقامی زبان میں بھی پکارا جاتا ہے)، Nelumbium Speciosum (جسے مقامی زبان میں پابوڑا کہا جاتا ہے) یا بہت سی ایسی چیزیں جن کو جھیلوں کا فروٹ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، ان کی شہروں میں بڑی مارکیٹ تھی اور ساتھ میں جھیل کی خوبصورتی کا سبب بھی‘۔
اس جھیل کی قدامت سے متعلق ابھی تک کوئی آخری نقطہ نظر تو قائم نہیں ہوسکا ہے، مگر کچھ لوگوں نے اندازے ضرور لگائے ہیں، جیسے بدر ابڑو صاحب کہتے ہیں، ’منچھر نے آج سے 10 ہزار برس پہلے Holocene زمانے میں جنم لیا ہوگا کیونکہ ان کے کناروں پر ’این جی مجمدار‘ (نونی گوپال مجمدار) نے، بہت سارے تاریخ سے پہلے کے مقامات ڈھونڈے تھے جن میں: پیر لال چھٹو، مشاک، روھینڈو، دُنب بھٹی، گاج، نئنگ، کائی اور دوسرے اہم مقامات شامل ہیں‘۔ کچھ بھی بعید نہیں ہے مگر یہاں سائنسی بنیادوں پر ایک سنجیدہ تحقیق کی سخت ضرورت ہے۔
میں آپ کو اس جھیل سے متعلق 1839ء کی ایک زبردست اور دلچسپ کہانی سنانا چاہتا ہوں مگر اس سے پہلے ہم محقق تاج صحرائی صاحب کی اس حوالے سے کی گئی تحقیق پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیں تو یہ زیادہ مناسب رہے گا۔ وہ اچھے، سنجیدہ اور زبردست لکھاری تھے، وہ لکھتے ہیں کہ 'کھیرتھر پہاڑوں کا سلسلہ اور ان میں دریائے سندھ کی مٹی سے بنے زرخیز زمینی سلسلے اور ان سلسلوں میں ایک نچلی سطح رکھنے والا زمینی بیلٹ جس کو مقامی زبان میں ترائی کہتے ہیں، اس ترائی کے جنوبی کونے میں یہ منچھر جھیل ہے۔ اس کو بھرنے کے لیے پانی مختلف ذرائع سے ملتا ہے، مثلاً گاج، شُول، انگائی اور نئنگ جیسی پہاڑی سلسلوں پر بارش کی وجہ سے بہہ کر آنے والی وقتی نہروں (جس کو مقامی زبان میں ’نئے‘ (واحد) کہا جاتا ہے) سے پانی منچھر میں آتا ہے، اس کے علاوہ جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح، منچھر سے زیادہ ہوتی ہے تو دریا کا پانی ’دانستر‘ اور ’اُڑل‘ نہروں کے ذریعے بہہ کر جھیل میں آتا ہے۔ اُڑل بہاؤ ایک قدیم بہاؤ ہے جس کا ذکر ہمیں قدیم تاریخ میں بھی ملتا ہے۔
’یہی وہ قدیم بہاؤ ہے جس پر ’آمری‘ کی قدیم آبادیاں آباد تھیں۔ منچھر کی مغربی جانب دریا میں جب بھی طغیانی آجائے تو سارے پانی کو منچھر میں ہی آنا اور پھر ان دونوں بہاؤں (اُڑل اور دانستر) کے راستے دریا میں ہی خارج ہونا ہوتا ہے۔ منچھر میں قریب 20 اقسام کی مچھلی کا شکار ہوتا ہے۔ کوٹری بیراج سے پہلے یہاں ’گانگٹ‘ (جو جھینگہ سمندر میں پلے بڑھے اس کو جھینگہ اور جو میٹھے میں پل کر بڑا ہو اُسے مقامی زبان میں گانگٹ کہتے ہیں) کا بھی شکار ہوتا تھا۔ وہ ملاح جن کا جنم کشتیوں پر ہوتا ہے، جوان وہاں ہوتے ہیں، دولہے وہاں بنتے ہیں، شادی کی ساری رسمیں کشتیوں پر ادا کرتے ہیں، ان کو بلاتے ہی ’کشتیوں پر رہنے والے‘ کے نام سے ہیں۔ ان کی کشتیاں آمدنی کے حوالے سے چھوٹی بڑی، سادہ یا شاندار ہوسکتی ہیں۔ ان کی خوراک میں مچھلی، روٹی، پرندے اور چاول شامل ہیں۔ ان کے پکوانوں کی اپنی ہی ایک لذت ہے۔ وہ میلوں ملاکھڑوں کے شوقین ہیں۔ شادی اور میلوں کے دنوں میں مرد اور عورتیں یا شادی وغیرہ جیسے موقعوں پر اکثر گہرے رنگوں کے کپڑے پہنتے ہیں۔
’کچھ محققین کے تحقیقی کام سے میں یہ بات کرسکتا ہوں کہ جھیلوں کے کنارے رہنے والے 4 یا 5 ہزار قبل مسیح میں یہاں آباد تھے، ان کے پاس کتوں کے علاوہ، گائے، بکریاں اور بھیڑیں بھی ہوتی تھیں، ان کے پاس ان جانوروں کو محفوظ رکھنے کے لیے باڑے بھی تھے، اور وہ ان کا چارہ مختلف طریقوں سے محفوظ بھی کیا کرتے تھے۔ یونانی مصنف ’تھیسیاس‘ (Ctesias) نے تحریر کیا ہے کہ ہند (سندھ) کے بیچ میں ایک بہت بڑی جھیل ہے، وہاں اس جھیل پر لوگ رہتے ہیں اور گھاس کی بنی ہوئی کشتیوں پر چلتے ہیں اور وہ تیراندازی کے ماہر ہیں’۔
تاج صحرائی نے اس جھیل پر ایک تحقیقی کتاب بھی لکھی ہے جو کئی بار شائع بھی ہوچکی ہے۔ یقیناً یہ منچھر پر انتہائی اہم اور بنیادی کام تھا صحرائی صاحب کا۔ فی الوقت ہم صحرائی صاحب سے عالم اَرواح سے اجازت لیتے ہیں۔
منچھر جیسی شاندار اور خوبصورت جھیل کی بربادی کی کہانی چونکہ اتنی پرانی نہیں ہے سو اسے بیان کرنے سے پہلے میں آپ کو ایسٹوک صاحب کی کتاب سے 1839ء کے جولائی کی کتھا سناتا ہوں۔ ایسٹوک کی یہ کتاب ان دنوں کی بنیادی معلومات دینے کے حوالے سے یقیناً ایک شاندار کتاب ہے، وہ 26 جولائی کو لکھتے ہیں کہ ’ہم سیہون سے ایک میل دُور تھے کہ جہاز چلانے والوں نے وہاں رکنے کو کہا کہ وہ لعل شہباز قلندر کی زیارت کے لیے جا سکیں۔ وہاں سخت گرمی تھی اس لیے میں کشتی سے نہیں اترا۔ وہ لوٹے تو پھر ہم آگے چلے۔ سیہون کے نزدیک دریا کا ’اُڑل‘ نامی ایک بہاؤ ہے، اس میں کچھ میلوں کے سفر کے بعد منچھر پہنچے، اس جھیل میں ’نارو‘ کا بہاؤ آکر گرتا ہے۔ ہم نے اس میں اپنا سفر جاری رکھا، کیونکہ دریا کے مرکزی بہاؤ میں ان دنوں سفر کرنا انتہائی خطرناک تھا۔
’(27 جولائی) ہم نے 20 میل تک اس میں سفر کیا، دن کو گرمی اس قدر زیادہ تھی کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ وہاں کے رہنے والے لوگ انتہائی غریب تھے۔ ہم کشتی میں آگے بڑھتے گئے اور پھر ایک گھاس کے جنگل میں جا پھنسے، وہاں پانی لمبی گھاس اور بیلوں سے بھرا تھا، موسیٰ جو کشتیوں کا انچارج تھا اس نے کشتی کو ایک جگہ پر کھڑا کردیا۔ میں نے اس کو بہت سمجھایا کہ تھوڑی ہوا لگنے سے مستول ٹوٹ جائے گا۔ مگر اس نے میری بات نہیں مانی۔ وہ کبھی کسی کی نہیں مانتا تھا۔ سورج ڈوبنے کے بعد تیز طوفان اور گرج چمک کے ساتھ بارش ہوئی۔ ویسے تو منچھر کا پانی خاموش ہوتا ہے مگر اس رات وہ ایسے جوش میں تھا کہ خوف آتا تھا۔ کشتی چلانے والے مزدوروں نے خوف کے مارے خدا کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے اور سجدے میں گر کر رحم مانگنے لگے۔ آخر رات کو یہ طوفان تھم گیا۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ رات کو ہواؤں کے زور پر ہم ’کیان‘ نامی گاؤں کے قریب آ نکلے ہیں اور ہمارے گھوڑوں والی کشتی بھی ساتھ کھڑی تھی۔ ہمیں 4 کشتیوں نے مل کر منچھر جھیل سے باہر نکالا۔ اس بدبخت جگہ سے نکلنے پر میں بہت خوش ہوا۔ منچھر جھیل کے بہت سارے حصے گھاس پھوس سے بھرے پڑے ہیں، جن میں مچھروں کی نسل پلتی رہتی ہے۔ قدیم نیل کے کیڑوں کی طرح یہاں بھی گرم ہوا اور کیچڑ میں بہت سارے زہریلے کیڑے مکوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر منچھر مچھلی سے جیسے بھری پڑی ہے اور یہاں ’آڑی‘ (Coots) پرندوں کی بہتات پائی جاتی ہے۔ اس جھیل کا مغربی کنارا بہت ہی ہرا بھرا ہے۔‘
اسی طرح گرمیوں سے پریشان ہوتے ہوئے، منچھر کو کوستے، مسٹر ایسٹوک، تیسرے دن اس جھیل سے نکل پائے۔
میں نے میرانی صاحب سے پوچھا کہ ’ایسٹوک جس ’کیان‘ نامی گاؤں کا ذکر کرتے ہیں وہ کہاں ہوسکتا ہے؟‘
جواب آیا ’جہاں تک میرا اندازہ ہے کہ یہ گاؤں شمال مغرب میں وہاں ہونا چاہیے جہاں اب ’گرکھنو‘ گاؤں آباد ہے‘۔
یہ سب زبردست تھا۔ ایک ایسی وسیع جھیل جس کی تاریخ ہزاروں برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ ماضی کی وہ ساری خوبصورتیاں کہاں چلی گئیں؟ ماہر آبپاشی محترم ادریس راجپوت صاحب کہتے ہیں کہ '1976ء میں واپڈا والوں نے ’نارتھ دادو سرفیس ڈرین‘ کے نمک بھرے پانی کو منچھر میں ڈرین کرنے کا سوچا، جس پر سندھ حکومت نے اعتراض کیا کہ ’اس کی وجہ سے منچھر میں نمکیات کی مقدار بڑھ جائے گی‘۔ واپڈا نے جواب میں کہا کہ ’700 پی پی ایم سے نمکیات نہیں بڑھے گی نہ لوگوں کے پینے کا پانی خراب ہوگا اور نہ زراعت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں گے‘۔ بہرحال منصوبہ شروع ہوا اور 1992ء میں مکمل ہوا۔ تب پتا چلا کہ منچھر میں نمکیات کا پی پی ایم 3500 تک بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے معاشی اور ماحولیاتی بربادی کے سبب بڑا نقصان ہوا۔ 1950ء میں اس جھیل سے سالانہ 3 ہزار ٹن مچھلی پکڑی جاتی تھی مگر یہ مقدار 2001ء تک 100 ٹن رہ گئی۔ ہزاروں ماہی گیروں نے جو یہاں سے نقل مکانی کی وہ الگ کہانی ہے‘۔
اس حوالے سے میں نے جب ماحولیات پر کام کرنے والے محترم ناصر پنھور سے گفتگو کی تو تفصیلی جواب آیا کہ ’سپریم کورٹ نے 2009ء اور 2013ء میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو ہدایات دی تھیں کہ منچھر کو اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے کے لیے آر بی او ڈی کے کام کو مکمل کیا جائے۔ منچھر کی بربادی میں جن بھی اداروں کا ہاتھ ہے ان کا تعین کرنا چاہیے کیونکہ اب تک واپڈا اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر الزام لگاتی آئی ہیں۔
آر بی او ڈی 2 پر واپڈا نے اپنے اعتراض میں کہا تھا کہ اس منصوبے سے اربوں روپے ضائع ہوجائیں گے اور یہ منصوبہ دریا کے دائیں طرف کے شہروں اور گاؤں کو ڈبو کر برباد کردے گا، ’آر بی او ڈی 2‘ کا منصوبہ جو سیہون سے گھارو کریک تک 273 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اس کا بنیادی مقصد، منچھر جھیل میں نمک سے بھرا پانی لے آنے والی MNDV (مین نارا ویلی ڈرین، کہ جسے 1932ء میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت مغربی نارہ (دریائے سندھ کا ایک قدیم بہاؤ) کو اخراجی برانچ کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا کیونکہ یہی اس بہاؤ کا قدیم راستہ تھا جو منچھر سے ہوتا ہوا آمری کی قدیم بستی کو آباد کرتا تھا) جسے اب آر بی او ڈی 1 کہا جاتا ہے، اس کا بہاؤ منچھر میں جانے سے روکتے ہوئے آگے آر بی او ڈی 2 سے ملا کر گھارو کریک کے راستے سمندر میں بہانا تھا۔
مگر 2008ء سے پیپلز پارٹی سرکار کی غیر واضح پالیسی کے سبب یہ منصوبہ تعطل کا شکار بنا ہوا ہے اور اسی وجہ سے منچھر بھی نہ پوری طرح زندہ ہے اور نہ مر رہی ہے۔ نزع والی کیفیت انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
کشتی کا ابھی تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ صبح کے وقت ہلکی ٹھنڈک تھی۔ اب وہ ٹھنڈک دھیرے دھیرے حدت میں تبدیل ہو رہی تھی۔
ہم جس بند پر کھڑے تھے اس کے مغرب میں منچھر تھی اور مشرق میں میٹھے پانی کا وہ فلٹریشن پلانٹ لگا ہوا تھا جو کبھی کڑوے پانی کو یقیناً میٹھا کرتا ہوگا مگر اس وقت یہ بند پڑا ہے۔ ایک خاموشی جو چہارسُو کسی کہرے کی طرح برستی ہے۔ البتہ کسی وقت اگر ہوا رُخ تبدیل کرتی تو مغرب سے پرندوں کی آوازیں آجاتیں۔ پھر کچھ پلوں کے بعد جیسے ہوا رُخ تبدیل کرتی تو ساتھ میں وہ پرندوں کی شیریں آوازیں بھی اپنے ساتھ لے جاتی اور پیچھے ہمارے ساتھ خاموشی رہ جاتی، پھر اچانک خوشخبری آئی کہ، کشتی آگئی۔
ہم کشتی پر کشتیوں والے اس گاؤں کی طرف روانہ ہوئے جو اس جھیل کا آخری کشتیوں والا گاؤں ہے۔ کسی زمانے میں ایسے 10 گاؤں ہوا کرتے تھے۔ ہوا کم ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح پُرسکون تھی۔ کہتے ہیں کہ جھیل کے پانی کی سطح ایک دو فٹ سے شروع ہوتی ہے اور مرکز میں 13 فٹ سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے۔ کشتی چلتی اور ساتھ میں کبھی کبھار باتیں بھی چلتیں۔ پھر پرندوں کی شیریں آوازیں آئیں۔ اتنے پرندے؟ میں نے آوازوں سے اندازہ لگایا۔ مطلب پرندے ابھی تک اپنے اس قدیم مسکن کو نہیں بھولے۔ ’یہاں تو بہت پرندے ہیں میرانی صاحب۔۔‘، میری اس بات پر میرانی اور میمن صاحب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ کشتی چلانے والا بھی مجھے دیکھتا تھا۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو وہ دیکھنے کے ساتھ ہلکا سا مسکراتا بھی تھا۔ میں ان کے چہروں کے تاثرات اور مسکراہٹ کی پہیلی کو نہ بوجھ سکا اور کچھ پوچھا بھی نہیں۔ مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں نے ایسی کوئی بات کردی تھی جو مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی۔
نیچے گہرا پانی تھا اور اوپر کشتی تیرتی تھی اور کشتی پر ہم تھے۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے تو کچھ کھڑی کشتیاں بھی دکھائی دینے لگیں۔ پرندوں کا شور اور نزدیک آتا گیا اور پھر پرندے بھی نظر آنے لگے۔ کچھ حواصل نظر آئیں اور ’ساں‘ (Goliath Heron) پرندے بھی دیکھنے کو ملے۔ Coots پرندوں کی بھی بہتات تھی۔ بہت اچھا لگتا ہے پرندوں کو پانیوں میں دیکھ کر۔ فطرت کتنی خوبصورت اور زبردست ہے۔ حیرت ہے کہ حواصل ہمیں دیکھ کر اُڑ نہیں رہے تھے۔ پھر ساں پرندے بھی بڑے مزے سے اپنی دھن میں بیٹھے تھے اور ہمیں چور نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ’ساں‘ پرندے جیسا چوکنا رہنے والا اور کوئی مقامی پرندہ آپ کو نہیں ملے گا۔ اس کا شکار کرنے کے لیے انتہائی ہوشیار شکاری چاہیے کیونکہ خوراک کھاتے وقت بھی وہ اتنا الرٹ رہتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسا پرندہ بے پرواہ کیسے بیٹھا ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے۔ تب یہ راز کھلا اور اس ہنسی کی گتھی بھی سلجھی۔ میری ساری خوشی جو یہ سب دیکھ کر پیدا ہوئی تھی، وہ کافور ہوگئی۔
فطرت کا سب سے بڑا دشمن انسان ہی ہے۔ یہ سارا منظر فریب اور دھوکے سے بھرا ہوا تھا۔ حواصل اور یہ سارے پرندے بندھے ہوئے تھے۔ پانی کے اندر لکڑی جماکر پھر جھاڑیوں کے گول دائرے بنا کر اس پر پرندوں کو بٹھا دیتے ہیں۔ مجھے جو دُور سے بے تحاشا کوٹس نظر آرہی تھیں۔ وہ سیاہ پولیتھین بیگس اور فوم کے ٹکڑے تھے۔ وہ پرندوں کی آوازیں بھی جعلی تھیں۔ موبائل کی دکانوں سے ان پرندوں کی اس چہچہاہٹ کو کارڈ میں منتقل کیا جاتا ہے۔ پھر بازار سے 500 روپے کے اندر ملنے والی ڈیوائس خریدی جاتی ہے جس میں یہ کارڈ لگا کر پلے کردیا جاتا ہے۔
یہ وہ سارے فریب اور دھوکے کے جال ہیں جو اوپر اڑنے والے پرندوں کے لیے پانی کی سطح پر بچھائے جاتے ہیں تاکہ وہ معصوم پرندے یہ سمجھیں کہ نیچے ہمارے جیسے بہت سارے پرندے ہیں۔ وہ اس دھوکے میں آکر جیسے ہی نیچے اترتے ہیں، یا تو ان جالوں میں پھنس جاتے ہیں یا بندوق کا کارتوس ان سے سانس کی ڈوریاں چھین لیتا ہے۔ یہ سب کیا تھا؟ میں کچھ ہی پل میں پتا نہیں کہاں گم تھا۔ میرے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کی ہلکی تہہ محسوس ہوئی۔ میری اس کیفیت کو شاید میرانی صاحب سمجھ گئے۔ ’آپ کی پریشانی بالکل درست ہے مگر فریب اور دھوکے سے شکار کرنے کے طریقے بہت پرانے ہیں۔ اب ان میں جو سائنسی ایجادات کے غلط استعمال سے جدت آئی ہے، وہ یقیناً وسائل کے لیے خطرناک ہے۔ ویسے شکار کسی کا بھی ہو۔ وہ ایک قسم کا دھوکا ہی ہے‘۔ پھر اس پر ایک لمبی بحث چلی۔ مگر ماحول سے چاہت کسی پرندے کی طرح فُر ہوگئی۔ پرندے اتنے نزدیک تھے کہ اچھی تصویریں بنائی جاسکتی تھیں۔ مگر بندھے ہوئے، ڈرے ہوئے اور مجبور پرندوں کی کیا تصویریں بنائے آدمی؟
پھر کشتیوں پر قائم وہ گاؤں آیا۔
کچھ عورتیں برتن مانجھتی تھیں، کچھ کشتیوں پر کپڑے اور رلیاں دھوپ میں سوکھنے کے لیے پڑی تھیں۔ بچے کشتیوں پر کھیلتے تھے پھر جب ان کی نظریں ہم پر پڑیں تو کچھ دیر رُک جاتے پھر اپنی دھینگا مشتی میں مشغول ہوجاتے۔ کچھ لوگ ان کشتیوں سے تھوڑا پرے مچھلیوں کو پھنسانے کے لیے پانی میں جال بچھا رہے تھے۔ مطلب ان 40 کشتیوں کے اردگرد ایک گاؤں جیسا ہی ماحول تھا۔ بس چھوٹی چھوٹی گلیاں نہیں نکلتی تھیں اور نہ آنگن میں کوئی نیم کا پیڑ اُگتا تھا کہ جس پر کوا بیٹھ کر شام کے وقت آنے والے مہمان کی خبر دے۔
البتہ رہائشی کشتیوں کی چھتوں پر جہاں کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں پڑی ہوئی تھیں، وہاں سولر پلیٹ بھی رکھی ہوئی تھی جس پر موبائل اور پرندوں کی آوازیں بجانے کے لیے اس ڈیوائس کو بھی تو چارج کرنا ضروری تھا۔ ان کشتیوں کا اپنا ایک الگ کلچر ہے جو دھیرے دھیرے مر رہا ہے۔ اب جب جھیل کا پانی پینے جیسا نہیں رہا، تو پانی یا تو فلٹر پلانٹس سے آتا ہے یا پھر سیہون شہر سے۔ جیسے جیسے زندگی کے راستے سکڑتے جائیں گے بالکل اسی طرح دھیرے دھیرے یہ کلچر جو ہزاروں برسوں نے بُن کر تیار کیا تھا، اس کی گانٹھیں بھی دھیرے دھیرے کھلتی جائیں گی اور یہ کشتیوں کے اس گاؤں کا عکس جو اب پانیوں میں نظر آتا ہے، وہ انہی پانیوں میں گھل کر اپنا وجود ہمیشہ کے لیے کھو دے گا۔ کیا یہ ایک اچھا تصور ہے؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔
ہم اپنی کاہلیوں اور غلط فیصلوں کی وجہ سے، کسی کلچر کی بربادی کا سیاہ داغ اپنے ماتھے پر نہیں لگا سکتے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے کیونکہ فطرت جو بُن کر ہماری جھولی میں ڈالتی ہے وہ اس کی امانت ہوتی ہے۔ امانتوں کو دل سے لگا کر رکھا جاتا ہے۔ ہم اگر ایسا نہیں کرتے تو خیانت کرتے ہیں۔ خیانت کسی بھی صورت میں ہو، معافی کے قابل نہیں ہوتی!
حوالہ جات
۔ ’منچھر: ماضی، حال ائیں مستقبل‘۔ مرتب: ناصر پنھور، پیکاک پبلشر، کراچی
۔ ’نئیں مصر جا پرانا ورق‘۔ ای۔بی۔ ایسٹوک۔ سندھی ادبی بورڈ۔ حیدرآباد
۔ Lake Manchar. Taj Muhammad Sahrai. Culture Department, Sindh
۔ ’سندھ: جیئن مون ڈٹھی‘۔ ٹی۔پوسٹنس۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔