بلاول صاحب! 18ویں ترمیم کو بچانے کے لیے ضد اور نعرے کافی نہیں


پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی حکومت نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران 18ویں ترمیم کی طرف توجہ دلانے کے لیے پیپلزپارٹی کے ساتھ اپنے غیرمعمولی اختلافات کو استعمال کیا ہے۔
یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ حکمراں جماعت ایک بار پھر سرگرم نظر آنے والے اسد عمر کی قیادت میں 18ویں ترمیم کو زیرِ بحث لانے کو وقت کی اہم ضرورت ثابت کرنے میں ایڑی چوڑی کا زور لگا رہی ہے، وہی 18ویں ترمیم جسے ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد نے 'جمہوری قوتوں' (یہ خوش کن اصطلاح اکثر ان سیاستدانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو بیرونی قوتوں کے اثر و رسوخ سے پاک تصور کیے جاتے ہیں) کی اجتماعی عقلمندی قرار دیتے ہوئے خوش آئند تصور کیا تھا۔
جس لمحے یہ ترمیم منظور کی گئی تھی تب سے لے کر آج تک پیپلزپارٹی اس ترمیم کی محافظ اور اس کا دفاع کرتے چلی آرہی ہے۔ پیپلزپارٹی کا ماننا ہے کہ صوبائی حقوق کے لیے یہ تاریخی جدوجہد ہے جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ بلاشبہ پیپلزپارٹی نے اس کی تیاری میں مرکزی کردار کیا اور تب سے اب تک اس کردار کو ادا کرنے کے لیے تعریفیں بھی سمیٹیں۔
18ویں ترمیم کی کمزوری سامنے آنے کے لیے بس اس ایک جھٹکے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف اسلام آباد کی پشت پناہی رکھنے والے حملہ آور اس نظام کے قلب کو ہدف بنا سکتے ہیں جو بظاہر صوبائی خودمختاری کے تصورات کو جنم دینے والے نظریے کا حامل ہے۔
ایک یہ بھی تنقید درست اور مسلسل سننے کو ملتی ہے کہ جو لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں وہ ایسے وقت میں کہاں غائب ہوگئے جب بات ان سے نچلی سطح پر اختیارات اور طاقت کی منتقلی کی آئی ہے۔
صوبائی حکومتیں بھی مقامی حکومتوں کو اختیار کی منتقلی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہیں، اس کے پیچھے ہر صوبے میں الگ وجوہات ہیں۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جہاں سیاسی جماعتوں کو اپنے دفاع میں مشکل پیش آسکتی ہے، ٹھیک ویسے ہی جس طرح پیپلزپارٹی اور 18ویں ترمیم کے حامیوں کو ان لوگوں کے سامنے مشکلات کا سامنا ہے جو یہ کہتے تھے کہ آپ اپنے اختیارات کو نیچے تک منتقل کریں۔