رائل کالج آف Paediatricians میں مختلف تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا جن سے ثابت ہوا کہ 10 سال سے کم عمر بچوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے کا امکان بالغ افراد کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے اور اگر وہ بیمار ہوبھی جائیں تو بھی وہ اس وائرس کو پھیلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس حوالے سے مزید شواہد کی ضرورت ہے مگر اب تک کوئی بھی ایسا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا جس میں 10 سال سے کم عمر کسی بچے نے وائرس کو اپنے تعلق میں موجود کسی فرد میں منتقل کیا ہو۔
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب سوئٹزر لینڈ کے طبی حکام نے اعلان کیا ہے کہ 10 سال سے کم عمر بچے اپنے دادا، دادی اور نانا، نانی سے گلے مل سکتے ہیں کیونکہ وہ خطرے کا باعث نہیں بنتے۔
اس برطانوی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ بچوں میں انفیکشن اور آگے منتقل کرنے کی شرح بہت کم ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 لگتا ہے کہ بچوں کو بہت کم متاثر کرتا ہے اور ان میں اس کی شدت بھی کم ہوتی ہے، عموماً علامات ظاہر نہیں ہوتیں یا معمولی ہوتی ہیں، ان میں شدید بیماری کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں مگر وہ بہت کم ہیں، وائرس کی منتقلی میں بچوں کا کردار واضح نہیں، مگر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین اور عالمی ادارہ صحت کے مشترکہ کمیشن نے بھی وائرس سے متاثرہ افراد کے کانٹیکٹ ٹریس کرتے ہوئے کسی ایسے کیس کا ذکر نہیں کیا، جس میں کسی بچے نے کسی بالغ فرد کو متاثر کیا ہو۔
اس میں ایک تحقیق کے شواہد کو بھھی شامل کیا گیا جس میں ایک 9 سالہ برطانوی بچے میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی مگر اس کے رابطے میں آنے والے 170 سے زائد افراد میں سے کوئی بھی اس بیماری سے متاثر نہیں ہوا۔
پبلک ہیلتھ فرانس وبائی امراض کے ماہر کوسٹا ڈینس نے اس برطانوی بچے پر ہونے والی تحقیق میں ٹیم کی قیادت کی تھی اور ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ بچوں میں اس بیماری کی معتدل قسم نظر آتی ہے جس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ وہ آگے کیوں اس وائرس کو نہیں پھیلاتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایسا ممکن ہے کہ بچے دیگر کو متاثر کردیں مگر اب تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
چین میں بھی ایسے شواہد سامنے آئے تھے کہ جہاں خاندان اس وائرس سے متاثر ہوئے مگر بچوں نے اسے آگے نہیں پھیلایا۔
رائل کالج آف Paediatricians کے پروفیسر رسل وائنر کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہم نے ایسے شواہد نہیں دیکھے کہ بچے اس وائرس کو پھیلانے کے عمل میں شامل ہیں، مگر ابھی اس حوالے سے بہت زیادہ ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ قبل از وقت ہوگا کہ بچوں کو اپنے بزرگوں سے گلے ملنے کی اجازت دی جائے خصوصاً اس حقیقیت کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ بزرگ افراد اس وائرس کے سامنے بہت کمزور ہوتے ہیں۔
اس سے قبل چین میں ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بچوں میں نئے نوول کورونا وائرس کی علامات کی شدت بہت کم ہوتی ہے اور کیسز کی تشخیص بالغ افراد کے مقابلے میں بہت مشکل ہوسکتی ہے۔
مشرقی صوبے زیجیانگ میں بچوں کے 36 کیسز پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 10 کیسز میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں، جبکہ 7 میں تنفس کی علامات معتدل تھی۔
اس کے علاوہ مارچ میں طبی جریدے دی نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق کے نتائج میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی۔
ووہان میں کووڈ 19 کا شکار ہونے والے 171 بچوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ 15 فیصد کیسز میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں یا فوری طور پر علامات نہیں تھیں۔
12 فیصد میں نمونیا میڈیکل اسکین میں نظر آیا مگر انفیکشن کی علامات نہیں تھیں۔
امریکا کی وینڈربلیٹ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی ایک تحقیق کے مطابق 2003 میں چین سے پھیلنے والے سارس کے شکار افراد میں بالغوں کے مقابلے میں بچوں کی تعداد ڈرامائی حد تک کم تھی اور 13 سال سے کم عمر بچوں میں اس کی شدید علامات بھی زیادہ عمر کے مریضوں کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوئی تھیں۔
اور ایسا ممکن ہے کیونکہ بائیولوجی کے اصولوں کے مطابق بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں میں نوول کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوسکتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے خلیات اس وائرس کے لیے زیادہ اچھے میزبان نہیں ہوتے اور کورونا وائرس کے لیے اپنی نقل بنانے اور دوسرے افراد میں منتقل ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
محققین نے مزید بتایا کہ بچے بھی اس وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر ان میں علامات بالغ افراد کے مقابلے میں زیادہ شدید نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں طبی نگہداشت کی کم ضرورت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رویہ وائرس والے دیگر امراض میں بھی نظر آتا ہے کیونکہ ارتقائی طور پر ہم اس طرح کے حالات سے متاثر ہونے کے لیے ڈیزائن ہوئے ہیں اور بڑے ہونے پر مدافعتی نظام زیادہ پھیلتا ہے۔