پاکستان کے لیے بُری خبر: مزید عالمی وبائیں پھن پھیلائے کھڑی ہیں


یہ وقت ہے پھنسنے اور پھنسے رہنے کا۔ بند سرحدوں اور زمین پر کھڑے جہازوں کی وجہ سے مارچ 2020ء میں جو جہاں تھا وہ وہاں رہ گیا۔
مغرب والوں کے لیے یہ گریٹ پاز یا 'بڑا ٹھہراؤ' پریشانی اور کوفت کا سبب بن رہا ہے۔ (نوٹ: مختلف جگہوں پر پھنسے ہوئے لوگوں کے گزرتے شب و روز کے لیے میں نے یہ اصطلاح خود تخلیق کی ہے)
نیویارک کے چند شہری لاس اینجلس میں پھنسنے پر مایوس ہیں، پیرس کے کچھ باسی نیویارک میں پھنس کر ناخوش ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ امراء جن کے لیے سفر زندگی کا حُسن بڑھانے کا ذریعہ تھا (جس کی مثالیں تاریخ میں زیادہ نہیں ملتیں)، ان کے لیے ایک خوبصورت جگہ سے دوسری نفیس جگہ پر پہنچانے والی باآسانی دستیاب پروازوں میں آنے والے تعطل نے انہیں بے بس اور لاچار بنا دیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی شائع کردہ تصاویر سے چند بستروں پر مشتمل کمروں کا انکشاف ہوا اور یہ کہ کس طرح جسمانی محنت و مشقت کا کام کرنے والے آدمیوں کو چھوٹی اور تنگ جگہوں پر غیر معینہ مدت کے لیے ٹھہرا دیا گیا ہے۔ یہ لوگ بے یار و مددگار وہاں بیٹھے ہیں کہ وطن واپس لوٹ نہیں سکتے اور امراء کی طرح سماجی دُوری اپنائے رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں۔
وائرس کے خطرے اور معاشی مستقبل سے متعلق غیر یقینی کی صورتحال کا بے رحم خوف انہیں مسلسل ستائے ہوئے ہے۔ وہ جن بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں، تیل کی پائپ لائن، میگا پراجیکٹ میں ملازمت کر رہے تھے کیا وبا کے بعد وہ اپنا کام جاری رکھ پائیں گے؟ اس وبا کا خاتمہ کس دن ہوگا؟ ہوگا بھی یا نہیں؟
پاکستان کے ہنرمند غیر ملکی ملازمین کے اپنے الگ مسائل ہیں۔ ڈاکٹرز یا انجینئرز یا پھر اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے لوگ تو خود کو تنہائی میں رکھنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے علاوہ دیگر لوگ گھروں سے کام اور دنیا کو اپنے قبضے میں لینے والے اس وائرس سے بچاؤ کے لیے ضروری تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ افراد فوری خطرے کی زد میں تو نہیں ہیں لیکن یہ بھی غیر یقینی کی صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں۔ چونکہ عالمی معیشت دن بدن سکڑتی جا رہی ہے اس لیے یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ جن مارکیٹوں میں یہ کام کر رہے ہیں وہاں ان کی ملازمتیں برقرار رہ سکیں گی یا نہیں؟
قلیل مدتی اعتبار سے (لیبر باہر بھیجنے والے ممالک کو چھوڑ کر) تقریباً تمام لیبر لینے والے ممالک نے یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ جن افراد کے ویزے لاک ڈاؤن کے دوران ختم ہوچکے ہیں ان پر جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔
متحدہ عرب امارات نے ویزوں کی معیاد ختم ہونے پر سزا اور جرمانہ معاف کردیا ہے۔ اسی طرح امریکا نے بھی کہا ہے کہ ایچ ون بی (H-1B) درجے کا ویزا رکھنے والے غیر ملکیوں کو سزاؤں یا امیگریشن کے جھنجھٹوں سے بچانے کے لیے ویزے کی میعاد میں 60 روز کی توسیع کی جائے گی۔
ان چھوٹے چھوٹے سکون بخش اقدامات سے ایسے بہت سے پریشان حال خواتین و حضرات کو شاید کچھ تسلی ملی ہوگی جو اپنی ملازمتوں کو کھو دینے کے خوف میں مسلسل مبتلا ہیں، یہ خوف انہیں اس لیے نہیں ستا رہا کہ انہوں نے اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی برتی ہے بلکہ اس کا تعلق ویزوں سے جڑے مسائل سے ہے۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@