وائٹ ہاؤس نے ٹوئٹر پر مودی کو ’ان فالو‘ کرنے کی وضاحت کردی
وائٹ ہاؤس نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، صدر رام ناتھ کووِند کے اکاؤنٹس کو ’ان فالو‘ کرنے کی وضاحت کردی۔
عرب خبررساں ادارے گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے کسی ملک کے دورے کے دوران اس کا ٹوئٹر ہینڈل (اکاؤنٹ) میزبان ملک کے اہم حکام کو ایک خاص مدت کے لیے فالو کرتا ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کرنے کا مقصد میزبان ملک کے حکام کی جانب سے صدارتی دورے کی حمایت میں کیے گئے پیغامات ریٹوئٹ کرنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس نے مودی کو ٹوئٹر پر 'ان فالو' کیوں کیا؟
یاد رہے کہ فروری میں امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران وائٹ ہاؤس نے بھارتی صدر، وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے دفتر، امریکا میں موجود بھارتی سفارتخانے، بھارت میں موجود امریکی سفارتخانے اور بھارت میں تعینات امریکی سفیر کین جسٹر کو فالو کرنا شروع کردیا تھا۔
تاہم رواں ہفتے کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نے ان تمام 6 اکاؤنٹس کو ’ان فالو‘ کردیا تھا۔
اس ضمن میں ایک سینئر امریکی عہدیدار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ ’عام طور پر وائٹ ہاؤس کا ٹوئٹر اکاؤنٹ امریکی حکومت کے سینئر عہدیداران اور جو مناسب لگے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو فالو کرتا ہے‘۔
مثال کے طور پر صدارتی دورے کے دوران دورے کے حوالے سے میزبان ملک کے حکام کو ان کے پیغامات ریٹوئٹ کرنے کے لیے فالو کیا جاتا ہے۔
اس وقت وائٹ ہاؤس کے ٹوئٹر پر 2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد فالورز ہیں جبکہ اس اکاؤنٹ نے 13 اکاؤنٹس کو فالو کیا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنیوالے ممالک میں شامل کیا جائے، امریکی کمیشن
ان 13 اکاؤنٹس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذاتی اور سرکاری اکاؤنٹ، خاتون اول میلانیہ ٹرمپ، نائب صدر مائیک پینس اور ان کی اہلیہ، پریس سیکریٹری، قومی سلامتی کونسل اور وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکریٹری اسٹیفن گرشم اور دیگر شامل ہیں۔
خیال رہے گزشتہ روز وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھارتی وزیراعظم اور صدر کو ان فالو کرنے کی خبر سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی۔
اس پر ردِ عمل دینے والوں میں کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی بھی پیش پیش تھے اور انہوں نے اس پیش رفت پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ایک ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے وائٹ ہاؤس کی جانب سے وزیراعظم اور صدر کو ’ان فالو‘ کرنے سے تشویش ہوئی ہے‘۔
ساتھ ہی انہوں نے وزارت خارجہ سے بھی مطالبہ کردیا تھا کہ اس کو نوٹ کریں۔
واضح رہے کہ فروری کے آخری ہفتے میں امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران ہی نئی دہلی میں بدترین مذہبی فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں زیادہ تر مسلمانوں، ان کے گھروں اور کاروبار کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے پر تشدد کے واقعات کے باعث چند روز قبل ہی امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو ’خاص تشویش والا‘ ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا جس کا نتیجہ امریکی پابندیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔