امریکا و برطانیہ کے بعد جرمنی میں بھی کورونا ویکسین کی آزمائش
دنیا بھر میں لگ بھگ 32 لاکھ انسانوں کو متاثر کرنے اور 2 لاکھ 27 ہزار انسانوں کی زندگیاں لینے والی کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کی تیار کی جانے والی ویکسین کی جرمنی میں آزمائش شروع کردی گئی۔
جرمنی سے قبل گزشتہ ہفتے 23 اپریل کو برطانیہ کی جانب سے بھی تیار کی جانے والی پہلی ویکسین کی آزمائش شروع کی گئی تھی۔
برطانیہ سے قبل امریکا کی مختلف کمپنیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی 2 ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی گئی تھی اور اب جرمنی کی جانب سے بھی ویکسین کا ٹرائل شروع کردیا گیا۔
مجموعی طور پر 30 اپریل تک دنیا بھر میں صرف 4 ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کردی گئی تھی جب کہ امریکا کی جانب سے ٹی بی کی ویکسین کی بھی کورونا کے مریضوں پر آزمائش شروع کی جا چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی پہلی بار انسانوں پر آزمائش شروع
علاوہ ازیں، امریکا، برطانیہ، جرمنی، بھارت، پاکستان، آسٹریلیا اور چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں مختلف بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات کی آزمائش بھی کی جا رہی ہیں تاہم خصوصی طور پر کورونا کے لیے تیار کی گئی صرف 4 ویکسینز کا ہی انسانوں پر ٹرائل شروع ہوسکا ہے۔
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق جرمنی کی کمپنی بائیو ٹیک اور ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی Pfizer کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کی رواں ہفتے انسانوں پر آزمائش شروع کردی گئی اور 30 اپریل تک مذکورہ ویکسین کے ڈوز 12 رضاکاروں کو دیے جا چکے تھے۔
مذکورہ ویکسین کو بی این ٹی 162 کا نام دیا گیا ہے اور اسے مجموعی طور پر 200 رضاکاروں پر آزمایا جائے گا جن کی عمریں 18 سے 55 سال تک ہوں گی۔
مذکورہ ویکسین تیار کرنے والی ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی Pfizer نے اسی ویکسین کی آزمائش امریکا میں بھی شروع کرنے سے متعلق درخواست دے رکھی ہے اور اُمید کی جا رہی ہے کہ امریکا میں بھی مذکورہ ویکسین کو آزمانے کی اجازت دی جائے گی۔
اگر بی این ٹی 162 انجیکشن کی انسانوں پر کامیاب آزمائش شروع ہوئی تو اگلے ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر مذکورہ ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہونے کی اُمید ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس کی دوسری ویکسین کی انسانوں پر آزمائش
جرمنی کی مذکورہ ویکسین سے قبل امپرئیل کالج لندن اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے تیار کی گئی ویکسین کی بھی 23 اپریل سے انسانوں پر آزمائش شروع کی گئی تھی۔
برطانوی ماہرین کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسین 500 رضاکاروں پر آزمائی جائے گی اور برطانوی ماہرین اور حکومت کو 80 فیصد یقین ہے کہ ویکسین کا انسانی ٹرائل کامیاب ہو جائے گا۔
برطانوی ماہرین اور حکومت کو اُمید ہے کہ مذکورہ ویکسین کا ٹرائل ستمبر تک مکمل ہوجائے گا اور اس کے فوری بعد اس ویکسین کے ڈوز تیار کرنا شروع کردیے جائیں گے جب کہ کچھ رپورٹس کے مطابق مذکورہ ویکسین کے ڈوز پہلے ہی بنانا شروع کردیے جائیں گے۔
جرمنی و برطانیہ سے قبل 6 اپریل کو امریکی کمپنی انوویو کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی گئی تھی۔
انوویو کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کو (انو 4800) ڈی این اے ویکسین کا نام دیا گیا ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو تقویت فراہم کرکے انسانی جسم میں اینٹی باڈیز کی پیداوار کو بڑھاتی ہے۔
مذکورہ ویکسین کو 2 مختلف مقامات پر رضاکاروں پر آزمایا جا رہا ہے۔
اسی کمپنی سے قبل گزشتہ ماہ 16 مارچ کو دنیا کی پہلی کورونا سے بچاؤ کی امریکی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی گئی تھی۔
امریکی کمپنی موڈرینا کی جانب سے محض 2 ماہ میں تیار کردہ ویکسین کی 16 مارچ سے انسانوں پر آزمائش شروع کی گئی تھی، مذکورہ ویکسین بھی 18 سے 55 سال کی عمر کے 45 رضاکاروں پر آزمائی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں بھی کورونا ویکسین کی انسانوں پر آزمائش
ماہرین نے بتایا تھا کہ مذکورہ ویکسین کا ٹرائل 12 سے 18 تک کے دورانیے پر مشتمل ہوگا۔
مذکورہ چاروں ویکسین کی انسانی آزمائش جاری رہنے کے باوجود زیادہ تر ماہرین کا ماننا ہے کہ دنیا میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین دستیاب ہونے میں کم از کم ایک سال کا عرصہ لگ جائے گا۔
اس وقت امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسرائیل، بھارت اور چین سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی 100 کے قریب کمپنیاں و ادارے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں مصروف ہیں تاہم تاحال صرف امریکا کی 2 ویکسین کی انسانی آزمائش کا پروگرام شروع کیا جا چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی طرح بھی دنیا میں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین سال 2020 کے آخر سے قبل دستیاب نہیں ہوگی تاہم برطانوی ماہرین اور حکومت کی جانب سے امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین ستمبر کے آخر یا پھر اکتوبر کے وسط تک دستیاب ہوگی تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔