پنجاب میں کسی وضاحت کے بغیر کورونا وائرس ٹیسٹنگ کی تعداد میں کمی
لاہور: ملک میں کورونا وائرس جہاں اپنے عروج کی جانب بڑھ رہا ہے وہیں پنجاب حکومت نے مشتبہ مریضوں میں وائرس کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے یومیہ 5 ہزار ٹیسٹ کی صلاحیت میں کمی لاتے ہوئے یہ تعداد 40 سے 50 فیصد تک کردی۔
سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کے حکام اپنی صلاحیت کے مطابق بھی ٹیسٹ نہیں کررہے جو عوام میں وائرس کی موجودگی کی تفصیلات جاننے کے لیے ضروری ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ٹیسٹ کے تناسب میں تیزی سے کمی آئی ہے جس سے اکثر افراد کو دھچکا بھی لگا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18 اپریل کے 3 ہزار 649 ٹیسٹ کے مقابلے میں 25 اپریل کو پنجاب حکومت نے ایک ہزار 755 ٹیسٹ کیے تھے جو یومیہ 5 ہزار کے قریب ٹیسٹ کی صلاحیت سے کہیں کم ہے۔
ایک عہدیدار نے کہا کہ ایک ہفتے سے زائد عرصے میں ٹیسٹس کی تعداد میں بتدریج کمی آئی ہے جو سرکاری اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے جس کے مطابق 20 اپریل کو پنجاب میں 2 ہزار 345 جبکہ 21 اپریل کو 2 ہزار 221 ٹیسٹ کیے گئے۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں کورونا کے 73 نئے کیسز، مزید 2 مریض چل بسے
اسی طرح 23 اپریل کو پورے صوبے میں ایک ہزار 832 ٹیسٹ کیے گئے اور 24 اپریل کو 2 ہزار 89 ٹیسٹ ہوئے۔
بعدازاں 25 اپریل کو ٹیسٹ کی تعداد 2 ہزار سے بھی کم ہو کر ایک ہزار 755 ہوگئی جبکہ حکومت یومیہ 5 ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
عہدیدار نے کہا کہ حکومت پنجاب پر صوبے میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد میں کمی ظاہر کرنے کے لیے دانستہ طور پر ٹیسٹ کے تناسب میں کمی کا الزام عائد کیا گیا۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق پنجاب میں یومیہ 6 ہزار 374 ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت حاصل ہے، جن میں سے 4 ہزار 974 ٹیسٹ سرکاری لیبارٹریز جبکہ دیگر نجی لیبارٹریز میں کیے جاسکتے ہیں۔
سرکاری شعبے میں پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام میں قائم لیبارٹری کے پاس سب سے زیادہ یومیہ 2 ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ہے، اس کے بعد پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹوٹ (پی کے ایل آئی) میں 800 اور لاہور ٹی بی کنٹرول پروگرام لیبارٹری کو 380 ٹیسٹ کی صلاحیت حاصل ہے۔
اسی طرح نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے پاس یومیہ 384 ٹیسٹ، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز 200، انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ، ملتان ٹی بی پروگرام، راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی اور الائیڈ ہسپتال فیصل آباد سب 190، 190 ٹیسٹ کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی اور جناح ہسپتال لاہور یومیہ 100 ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت حاصل ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں مزید 8 لیبارٹریز قائم کی گئی ہیں جو آئندہ دنوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کے ٹیسٹس کرسکیں گی۔
نجی شعبے میں شوکت خانم کینسر ہسپتال لاہور کے پاس 900 جبکہ چغتائی لیب کے پاس یومیہ 500 ٹیسٹس کرنے کی صلاحیت ہے۔
پنجاب حکومت کو اپنی مجموعی صلاحیت کے مقابلے میں 40 سے 50 فیصد ٹیسٹس کرنے پر سخت تنقید کا سامنا ہے،
عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر ٹیسٹ کے تناسب میں کمی پر پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر تنقید کی گئی جب ایک تقابلی جائزے سے معلوم ہوا کہ ملک میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرنے میں سندھ حکومت سب سے آگے ہے۔
پنجاب میں صحت حکام نے کہا کہ ٹیسٹ میں کمی کی وجہ سے صوبے بھر میں قرنطینہ مراکز میں موجود افراد کو ترجیح دینے کی حکومتی پالیسی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب سے ایک دن میں کورونا کے ریکارڈ کیسز،ملک میں متاثرین 3700 سے متجاوز،اموات 53 ہوگئیں
محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان نے کہا کہ ہم 4 کیٹیگریز کے افراد کے ٹیسٹ کررہے ہیں، جن میں ایران سے آنے والے زائرین، تبلیغی جماعت کے اراکین، قیدی اور دیگر شہری شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کا تناسب اس وقت زیادہ ہوا تھا جب صوبے کے 36 اضلاع میں قرنطینہ کیے گئے تبلیغی جماعت کے ایک ہزار 481 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تھے۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (ایس او پی) کے تحت ہر مصدقہ مریض کے 2 ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور کچھ کیسز میں 3 بھی کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں 9 ہزار 15 کو حال ہی میں ڈسچارج کیا گیا اور جب ایران سے زائرین آئے تھے تب بھی یہی صورتحال تھی۔
ترجمان نے کہا کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد اور زائرین کی اکثر تعداد کو ڈسچارج کیا جاچکا ہے اس لیے ٹیسٹ کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم اسمارٹ سیمپلنگ پروجیکٹ (ایس ایس پی) کے ذریعے ٹیسٹنگ کو توسیع دے رہے ہیں، اس کے تحت محکمہ صحت عام شہریوں کے 10 ہزار ٹیسٹ کرے گا۔
ترجمان نے ٹیسٹ کے تناسب میں کمی کے لیے دانستہ غفلت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ 10 ہزار ٹیسٹ آئندہ 3 روز میں کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی محکمہ صحت بیرون ملک سے واپس لائے جانے والے شہریوں کی ٹیسٹنگ پر توجہ مرکوز کررہا ہے۔
یہ خبر 30 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی