پھر اسی سال نیوزی لینڈ کی باؤنسی اور سیمنگ پچوں پر بھی انہوں نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری بنادی۔ ناصرف سنچری بنائی بلکہ پاکستان بیٹنگ کا سارا بوجھ اکیلے ہی اٹھاتے نظر آئے۔ عید والے دن صبح صبح پاکستان ڈونیڈن ٹیسٹ تو ہار گیا لیکن عمر اکمل نے اپنی قابلیت کا دائرہ ٹیسٹ میچوں تک بڑھا دیا۔ شین بونڈ کو لگائے گئے شاندار شاٹس آج بھی خون گرماتے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں اپنی پہلی ہی ٹیسٹ سیریز میں وہ دونوں ٹیموں کی طرف سے سب سے کامیاب بلے باز ثابت ہوئے تھے۔ حالانکہ اس ٹیم میں محمد یوسف، مصباح الحق اور سلمان بٹ جیسے کہنہ مشق کھلاڑی بھی شامل تھے۔
پھر اس سیریز کے فوراً بعد آسٹریلیا کی مشکل سیریز میں بھی عمر اکمل پاکستان کی طرف سے دوسرے بہترین بلے باز ثابت ہوئے۔ سو انہوں نے 2 انتہائی مشکل امتحانات پاس کرلیے تھے۔ سری لنکا کی اسپن وکٹوں پر ورلڈ کلاس اسپنرز کے سامنے عمدہ بلے بازی ہو یا نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی باؤنسی وکٹیں ہوں۔ یا پھر ویسٹ انڈٰیز میں ہونے والا ورلڈ ٹی20 کپ بھی ان کے لیے اچھا ثابت ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب کرکٹ کے میدانوں میں عمر اکمل کے چرچے تھے اور بھارت کے ویرات کوہلی سے ان کا موازنہ کیا جارہا تھا۔ دونوں کھیل کا مستقبل کہلاتے تھے، لیکن مسئلہ کہیں اور تھا۔
میدان کے اندر عمر اکمل جتنے بڑے کھلاڑی تھے میدان سے باہر ان کی شخصیت میں اتنے ہی مسائل تھے۔ عمر اکمل بدنصیب تھے کہ انہیں بھائی کا غیر مشروط تعاون حاصل تھا، بدنصیب اس لیے کہ یہ تعاون مثبت نہیں منفی تھا۔
بڑے بھائی ہمیشہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو چلاتے ہیں، اچھے بُرے کی تمیز سکھاتے ہیں، اندھی کھائیوں میں گرنے سے بچاتے ہیں، لیکن یہاں کامران اکمل اپنی ذمہ داری نبھانے میں یکسر ناکام رہے۔
عمر اکمل کے کیرئیر میں جو سب سے پہلی ڈسپلن کی خلاف ورزی لکھی گئی تھی وہ بھی بھائی کی محبت میں کی گئی ایک حماقت تھی۔ بات ہورہی ہے سڈنی ٹیسٹ کی ناقابلِ فراموش اور ذلت آمیز شکست کے بعد کامران اکمل کے ٹیم سے اخراج کی۔ کامران اکمل کو مسلسل 42 ٹیسٹ میچوں کے بعد پہلی بار ڈراپ کیا گیا تو ان کا اپنا رویہ تو مایوس کن تھا ہی انہوں نے عمر اکمل کو بھی اپنے پیچھے لگا لیا اور عمر اکمل نے کمر درد کا بہانہ بنالیا جو بعد میں مکمل جھوٹ ثابت ہوا۔ یوں پاکستان کو جو ایک بہترین بلے باز مل چکا تھا وہ خاندانی تعصب کا شکار ہوگیا۔
یہ پہلا بدنما داغ تھا جو ان کے ماتھے پر سجا اور اس کے سب سے بڑے ذمہ دار خود ان کے بڑے بھائی کامران اکمل تھے جو اس وقت تک ایک سینئر کھلاڑی کے طور پر ٹیم کا مستقل حصہ بن چکے تھے۔ کامران اکمل بُرا بھلا سب سمجھتے تھے، لیکن وہ اپنے نوعمر نا سمجھ بھائی کو اپنی خود غرضی کی بھینٹ چڑھا گئے۔
اصولاً تو یہاں سے عمر اکمل کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے تھا کہ کسی انسان کے لیے ایک جھٹکا ہی کافی ہوتا ہے لیکن جہاں باڑ ہی فصل کو کھا رہی ہو وہاں آنکھوں پر پڑے پردے آپ کو کچھ دیکھنے سمجھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
شہرت جو ان کا حق تھا لیکن شہرت کے ساتھ ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور یہ سبق عمر اکمل کو نا تو بڑا بھائی سکھا سکا اور نا ہی کوئی دوسرا ایسا موجود تھا جو انہیں یہ باتیں بتاتا۔
محمد یوسف تب ٹیم کے کپتان تھے ان دنوں خود یوسف کے بارے میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کے بہت سارے قصے میڈیا کی زینت بنتے رہے کہ مبیّنہ طور پر یونس خان کے خلاف قرآن پر حلف لیے جاتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ انہی دنوں شاہد آفریدی نے بھی چند میچوں کے بعد اچانک کپتانی چھوڑ دی اور سلمان بٹ کو کپتانی مل گئی۔ پھر دورہ انگلینڈ میں جو ہوا وہ دہرانا بھی کافی تکلیف دہ ہے۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمر اکمل ابھی کچی عمر میں ہی تھے جب ان کے ارگرد یہ سب ہورہا تھا۔ ویرات کوہلی کو تب مہندرا سنگھ دھونی جیسا شاندار کپتان میسر تھا۔ جس نے آگے چل کر ان کی زندگی میں بہت مثبت اثر ڈالا۔ اگر کہا جائے کہ کیرئیر کے آغاز میں اتنا بڑا مینٹور مل جانا ایک بنیادی فرق ثابت ہوا تو یہ کچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا۔
پھر جہاں سال 2010ء ان کے لیے ملا جلا سال تھا وہاں 2011ء عمر اکمل کے لیے بہترین سال ثابت ہوا۔ عمر اکمل کو مسلسل کھیلنے کا موقع ملا اور انہوں نے تسلسل سے اسکور بھی کیے اور اپنا رویہ بھی عمدہ رکھا۔ یہی ان کا سب سے بہترین سال بھی رہا۔
یہاں ایک دلچسپ بات بیان کردینا بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ یونس خان اور مصباح الحق کے زیرِ قیادت انہوں نے بہترین کارکردگی دکھائی اور یہ دونوں ہی بہترین ڈسپلن اور ٹیم کے لیے کھیلنے والے لوگ تھے۔ ویسے تو اپنے کیرئیر کے پہلے 6 ٹیسٹ میچ انہوں نے محمد یوسف کے زیرِ قیادت کھیلے تھے اور وہاں بھی ان کا کھیل عمدہ تھا، لیکن وہ آغاز کے دن تھے جب ابھی ہوا نہیں بدلی تھی۔ بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جب سڈنی ٹیسٹ کے بعد وہ پلئیرز پاور اور خاندان کو ملک پر ترجیح دینے کے مرتکب ہوئے۔
اس پورے قصے میں محمد یوسف بھی کامران اکمل کی ناجائز حمایت کرتے نظر آئے تھے۔ حتیٰ کہ کرکٹ بورڈ کو مینجر عبدالرقیب کو ٹؤر کمیٹی چیف بنانا پڑا۔ لیکن پھر عمر اکمل دوبارہ ٹیسٹ کرکٹ میں اتنا عمدہ کھیل نہیں دکھا سکے۔
2011ء میں جہاں محدود اوورز میں ان کا کھیل شاندار تھا وہیں یہ سال ٹیسٹ کیرئیر کے اختتام کا سال بھی تھا۔ اوشیانا یعنی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اتنے شاندار کیرئیر کی ابتدا کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے عمر کو سبز جرسی کا شایانِ شان احترام نہ کر پانے کی سزا ملی ہے ۔
2012ء میں عمر اکمل کی جبلت لوٹ کر آئی اور ٹی20 ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں امپائر کی اجازت کے بغیر دستانے بدلنے کے جرم کا ارتکاب ہوگیا۔ یہاں سے آگے کا سفر چڑھائی سے زیادہ اترائی کا رہا۔ ایک بڑا بلے باز جو لاکھوں شائقین کے دل میں گھر کرچکا تھا اپنے بچپنے کی نذر ہو رہا تھا۔
ٹیسٹ ٹیم سے چھٹی ہو چکی تھی۔ ون ڈے میں اب وہ کھیل کے میدان سے زیادہ آؤٹ ڈور سرگرمیوں کی وجہ سے زیرِ بحث تھا۔ 2014ء میں انہیں ٹریفک وارڈن سے جھگڑے پر ایک رات حوالات میں گزارنا پڑی۔ اب وہ ایک مستند غیر سنجیدہ کرکٹر کا روپ دھار چکے تھے جسے شہرت ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
2015ء کے ورلڈکپ میں واجبی کارکردگی اور ٹیم سے اخراج کے بعد عمر اکمل ایک بگڑے ہوئے شہزادے بن گئے۔ فیصل آباد کا تھیٹر ہو یا جنید خان جیسے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ جھگڑا، عمر اکمل مسلسل ڈھلوان کے سفر میں تھے۔ کارکردگی اور فٹنس دونوں بیٹھنے لگی تھیں حتیٰ کہ چمپئینز ٹرافی سے پہلے انہیں گھر بھیج دیا گیا۔ یوں مکی آرتھر اور عمر اکمل کے درمیان معاملات بگڑے۔ عمر اکمل نے ایک پریس کانفرنس میں کوچ پر گالیاں دینے کا الزام لگا دیا۔
پھر بیچ میں چند میچوں کے لیے کم بیک ہوا لیکن وہ اب اپنا جوبن کھو چکے تھے۔ اب عمر اکمل کو اپنے بیٹنگ نمبر سے شکایات تھیں۔ انہیں وکٹ کیپنگ سے مسائل تھے۔ ابھی ان کے اعداد و شمار چیک کرتے ہوئے انکشاف ہوا کہ بطور وکٹ کیپر عمر اکمل کے بیٹنگ ریکارڈز زیادہ اچھے ہیں۔ وہ جھگڑالو تو تھے ہی اب شکایتی بچے بھی بن چکے تھے۔ ایک بار تو وزیرِاعظم عمران خان کے پاس اپنے بیٹنگ نمبر کی سفارش کے لیے پہنچ گئے تھے۔
مکی آرتھر چلے گئے لیکن اس کے بعد بھی عمر اکمل کی شکایات وہی رہیں۔ نیشنل کرکٹ اکیڈیمی میں ٹیسٹ کے موقع پر شرٹ اتار کر جسم دکھانا اور پوچھنا کہ کہاں ہے چربی؟ تازہ ترین مثال ہے۔ ایک لمبی داستان ہے۔ عمر اکمل کو ہر کوچ اور ٹیم مینجمنٹ سے مسئلہ ہی رہا۔ ایک مضمون ان سب باتوں کو سمونے کے لیے ناکافی ہے۔ دراصل وہ اپنا راستہ کھو چکے تھے۔ منفیت اور خود ترسی جیسی بیماریاں انہیں اپنی گرفت میں لے چکی تھیں۔
حالیہ واقعہ جس نے عملاً عمر اکمل کا کرکٹ کیرئیر ختم کردیا ہے وہ اس سال پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے پہلے ان کے ساتھ بکی کے رابطوں کی عدم شکایت کی بنا پر رونما ہوا ہے۔
20 فروری کو انہیں معطل کردیا گیا تھا۔ پھر 17 مارچ کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے فردِ جرم عائد کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ کم از کم 2 بار عمر اکمل رابطے رپورٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان سے جواب طلب کیا گیا تھا۔ ان پر کرپشن کی پیشکش کا رابطہ رپورٹ نا کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جو پی سی بی کے اینٹی کرپشن کوڈ کے آرٹیکل 2.4.4 کے تحت سنگین جرم ہے۔
اس الزام کے تحت جرم ثابت ہونے پر 6 ماہ سے تاحیات پابندی لگ سکتی ہے۔ عمر اکمل نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تھی اور کیس نہ لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر کوئی کھلاڑی الزامات تسلیم کر لے تو ٹریبونل کی تشکیل کی بجائے اس کا کیس ڈسپلنری پینل کے سامنے رکھا جاتا ہے۔
گزشتہ روز ڈسپلنری پینل کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ فضل میراں کے سامنے عمر اکمل پیش ہوئے تھے جنہوں نے عمر اکمل کو 3 سال کی سزا سنا دی۔ کامران اکمل سمیت بہت سے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ انہیں سخت سزا سنائی گئی ہے لیکن یہاں یہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ عمر اکمل پاکستان کرکٹ بورڈ کو رابطوں کی رپورٹ نہ کرنے کی باقاعدہ دلیل پیش کرتے رہے، جواز تراشتے رہے، بحث کرتے رہے اور یہ ان کی نادانی کی حد تھی۔
ماضی میں محمد نواز اور محمد عرفان بھی اسی قسم کے الزام کے تحت چند ماہ کی سزائیں بھگت چکے ہیں۔ انہوں نے دیر سے رابطے رپورٹ کیے تھے تاہم ازخود رپورٹ کیے تھے اور اپنی سستی پر شرمندگی کا اظہار کرکے معافی کے طلبگار ہوئے تھے جبکہ عمر اکمل باقاعدہ جواز گھڑتے رہے۔
پھر ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے بھی عمر بغیر وکیل کے پیش ہوئے۔ مبیّنہ طور پر ان کے کروفر کا یہ عالم تھا کہ کورونا کے تناظر میں بخار چیک کرانے میں بھی پس و پیش کرتے نظر آئے۔ وہ 14 دن میں اپیل دائر کرسکتے ہیں تاہم اگر کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں آئی تو عمر اکمل ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ یوں اپنے بھائی کی خود غرضی، اپنی نادانی، شہرت کو سنبھال نہ پانے کی اہلیت اور کیرئیر کے ابتدائی سالوں میں چند سازشی کھلاڑیوں کا ساتھ انہیں لے ڈوبا۔ عبدالقادر آج ہم میں موجود نہیں ہیں ورنہ اپنے داماد کا یہ کارنامہ دیکھ کر وہ یقیناً بہت افسردہ ہوتے۔