سائنس و ٹیکنالوجی

کورونا وائرس: سام سنگ کے اسمارٹ فونز کو ایک اور دھچکا

اس سے قبل سام سنگ کو اپنی پروڈکشن 50 فیصد کم کرنے کا فیصلہ اس وبا کے نتیجے میں کرنا پڑا تھا۔

نئے نوول کورونا وائرس کی وبا اسمارٹ فون کی صنعت کو بری طرح متاثر کرچکی ہے اور لگ بھگ تمام کمپنیوں کو ہی مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔

کچھ ہفتے قبل دنیا میں سب سے زیادہ موبائل فون فروخت کرنے والی کمپنی سام سنگ کو اپنی پروڈکشن 50 فیصد کم کرنے کا فیصلہ اس وبا کے نتیجے میں کرنا پڑا تھا۔

سام موبائل کی رپورٹ کے مطابق اپریل 2020 کے دوران سام سنگ نے ایک کروڑ اسمارٹ فونز تیار کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جو بظاہر بہت زیادہ لگتی ہے مگر اس کمپنی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔

درحقیقت سام سنگ کی جانب سے ہر ماہ لگ بھگ ڈھائی کروڑ اسمارٹ فونز تیار کیے جاتے ہیں اور اس تعداد کو ایک کروڑ کرنا بہت بڑی کٹوتی ہے۔

اب ایک اور رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اسمارٹ فونز کی پروڈکشن میں 50 فیصد کمی کے بعد جنوبی کورین کمپنی پرزوں کے آرڈر میں بھی 50 فیصد کمی کرچکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 50 فیصد کمی سے عندیہ ملتا ہے کہ اسمارٹ فون مارکیٹ جلد دوبارہ اٹھ نہیں سکے گی اور اس نئے اقدام کے نتیجے میں انٹری لیول سے فلیگ شپ تک کے فونز متاثر ہوں گے۔

کورونا وائرس کے باعث سام سنگ کے نئے فلیگ شپ گلیکسی ایس 20 سییز کے فونز کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی اور یہ اثر کئی ماہ تک برقرار رہ سکتا ہے کیونکہ بیشتر ممالک میں لاک ڈائون کے نتیجے میں لوگوں کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ابھی بھی مارکیٹ میں مارچ میں تیار کیے جانے والے متعدد فونز موجود ہیں جو فروخت نہیں ہوسکے جبکہ سلواکیہ، جنوبی کوریا، برازیل اور بھارت میں کمپنی کو اپنی فیکٹریاں بند کرنا پڑیں۔

سفری پابندیوں کے باعث بھی نئے فونز کو مختلف ممالک میں پہنچانا آسان نہیں رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر آئندہ ماہ حالات بہتر ہوئے تو پروڈکشن کو پھر سے بڑھایا جاسکتا ہے مگر اس کا انحصار وائرس کے پھیلنے کی رفتار پر ہوگا۔

صرف سام سنگ نہیں بلکہ تمام اسمارٹ فون کمپنیوں کی فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے۔

فروری میں ایپل کے آئی فونز کی چین میں فروخت گھٹ کر صرف 5 لاکھ یونٹ رہ گئی تھی جبکہ مجموعی طور پر چین میں اسمارٹ فونز کی مانگ مارچ کے مہینے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد کم رہی تھی۔

کیا نوول کورونا وائرس اسمارٹ فون اسکرین پر زندہ رہ سکتا ہے؟

'کل زیادہ نہ کمایا تو تیری خیر نہیں'

ذو معنی اور طنزیہ گفتگو سے پرہیز کیوں ضروری ہے؟