گفتگو کے دوران ’تکیہ کلام‘ کے تکیے
با ادب با ملاحظہ ہوشیار! ارے ارے ٹھہریے، یہ ہماری آمد کا اعلان نہیں بلکہ پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری دور کا کامیاب ترین اور یادگار ڈرامہ تھا جسے اطہر شاہ عرف جیدی نے اپنے بذلہ سنج جملوں اور طنز سے بھرپور چٹکلوں سے مزین کیا تھا۔
مصنف نے اس تاریخی ڈرامے میں ہم غلاموں کو میسر بادشاہ سلامتوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ ایک ایک فقرہ اور منظر حسبِ حال ہونے کے باعث امر ہوگیا۔
درباری شاعروں کی چاپلوسیاں، مؤرخین کے ساتھ عالی جاہ کا حُسنِ سلوک اور بادشاہ معظم کی عوام بیزاری کے ساتھ ساتھ اس ڈرامے میں انصاف کے دعویدار بادشاہ کا ایک فقرہ ’انصاف ہوگا ضرور ہوگا‘ بہت مقبول ہوا اور پھر ایسا انصاف ہوتا کہ سائلوں کے چودہ طبق روشن ہوجاتے۔
بادشاہ کی زبان سے یہ کلمات اتنی بار ادا ہوتے کہ انصاف پر دھوکے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ اہلِ علم گفتگو کے دوران بار بار بے محل اور بے مصرف ایک فقرے کی ادائیگی کو تکیہ کلام کہتے ہیں۔ بادشاہ کا تکیہ کلام انصاف ہوگا ضرور ہوگا بن جاتا ہے۔
ایک تکیہ سونے یا ٹیک لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، یہ روایت بھی ہے اور سہولت بھی۔ کچھ لوگ گفتگو کے دوران بھی تکیے کی سہولت سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں یہاں تک کہ ایسے افراد اپنے نام سے زیادہ تکیہ کلام سے جانے جاتے ہیں اور قربان جایئے (یہ بھی ایک تکیہ کلام ہی ہے) کہ ملکِ خداداد میں اب تکیہ کلام بھی سیاسی ہوگئے ہیں۔
یہ تو سنا ہی ہوگا آپ نے! ’میں نے جان اللہ کو دینی ہے‘ اور خیر سے موصوف کی وزارت بھی اللہ کو پیاری ہوتے ہوتے رہ گئی۔
اب اپنے دھان پان سے جمشید انصاری کو دیکھ لیجیے۔ اللہ بخشے کیا کمال کی اداکاری کیا کرتے تھے۔ جملوں کی ادائیگی اور چہرے کے تاثرات میں وہ اپنے ہم عصروں سے بہت آگے تھے۔ بھانت بھانت کے کردار ادا کیے اور انکل عرفی میں ’چقو ہے میرے پاس‘ کے تکیہ کلام نے عوام میں خوب پذیرائی حاصل کی حالانکہ جو چیز ان کے پاس ہوا کرتی تھی وہ چاقو ہرگز نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ان کے 2 اور تکیہ کلام کرداروں سے زیادہ مقبول ہوئے جن میں ’قطعی نہیں‘ اور ’زور کس پر ہوا‘ شامل ہیں۔
ڈراموں کی طرح فلم انڈسٹری کے بھی کئی ڈائیلاگ زبان زدِ عام ہوئے تاہم کرداروں کے یہ تکیہ کلام ادب کی خوش نما شکل اور برمحل ہوتے تھے۔ کردار کی ضرورت بھی تھے اور فلم کی مقبولیت کے لیے ٹریڈ مارک بن جایا کرتے تھے جنہیں بطور فیشن لوگ اپنی گفتگو کا حصہ بھی بنالیتے تھے۔ ’نوا آیا ہے سونہڑیے‘ تو یاد ہی ہوگا۔
تمام ہی تکیہ کلام خوش گو نہیں ہوتے بلکہ کچھ تو ’خشک گوئی‘ کے درجہ کمال تک جا پہنچتے ہیں۔ ہمارے ایک استاد لیکچر کے دوران ’آپ سمجھے‘ اتنی بار دہراتے کہ ہم کچھ اور سمجھ ہی نہیں پاتے لیکن اس میں قصور استاد کا نہیں، ہم اوّل روز سے ایسے ہی کند ذہن واقع ہوئے ہیں۔ ایک کرکٹر ’جونسا ہے ناں‘ اتنی بار استعمال کرتے ہیں کہ اصل بات بلے کا باہری کنارہ لیکر کہیں اُڑن چُھو ہوجاتی ہے۔
ہمارے ایک دوست کی ہر دوسری لائن ’کیا نام ہے کہ‘ اور شیخوں کی محبت میں گرفتار ایک کولیگ کی ہر سانس ’واللہ‘ سے لبریز ہوتی ہے اور پڑوسی ’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے‘ کہنے کی لت میں مبتلا ہیں۔ ایسے بد ہیئت تکیہ کلام تمام گفتگو کا مزہ کرکرا کردیتے ہیں۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن لمبی لمبی چھوڑنے (یہ تکیہ کلام ہے حالانکہ یہاں مہذب لفظ دعوؤں بھی استعمال کیا جا سکتا تھا) کی طرح تکیہ کلام کے بے مصرف استعمال میں بھی ہمارے سیاستدانوں کی ’مہارت‘ کو کوئی چُھو بھی نہیں سکتا۔ یہ تکیہ کلام میں بھی ’چونا لگا‘ سکتے ہیں۔ جب چاہیں ملک کو ترقی کے اوج ثریا پر پہنچا دیں اور جب چاہیں یہ ثابت کردیں کہ ’ملک نازک دور سے گزر رہا ہے‘۔ ایسی دھینگا مشتی میں وزیر باتدبیر شہریار آفریدی نے ’میں نے جان اللہ کو دینی ہے کا تڑکا لگا دیا ہے‘۔
شہریار آفریدی کے تکیہ کلام نے منجمد ذہن راقم کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر وزیر موصوف کو اللہ کو جان دینی ہے تو ہم نے اپنی جانیں کہاں ڈپازٹ کرانی ہیں؟
گولی ماریں (یہ ہمارا تکیہ کلام ہے لیکن یہ مت سمجھ لیجیے گا کہ ہم کوئی ٹارگٹ کلر ہیں) سیاستدانوں کو اور آئیے تکیہ کلام سے متعلق ماہرین کی رائے لیتے ہیں۔
ماہرینِ لسانیات ’تکیہ کلام‘ کو غیر شعوری طور پر ادا ہوجانے والے الفاظ کا نام دیتے ہیں۔ تکیہ کلام کی ادائیگی کی کوئی ٹھوس وجہ معلوم نہیں تاہم یہ گفتار پر قدرت نہ ہونے کے ڈر، الفاظ کے ذخیرے میں کمی کا احساس، بات میں وزن ڈالنے کے لیے لاشعوری بہانہ اور ماحول کا اثر ہوسکتے ہیں۔ یہ گفتگو کے حُسن کو گہنا دیتے ہیں۔
ماہرینِ لسانیات صلاح دیتے ہیں کہ اگر بچپن سے ہی غیر ضروری الفاظ کے بار بار استعمال پر ٹوکا جائے اور حوصلہ شکنی کی جائے تو زبان و بیان کے بگاڑ کے عمل کو روکا جاسکتا ہے۔ الفاظ کے استعمال میں شائستگی اور کفایت شعاری کے احساس کو اجاگر کرنا ہوگا۔ یہ زبان کو درستی کے ساتھ مزین رکھنے کا واحد طریقہ ہے۔
انسانی ذہن، عادات اور رویوں پر نظر رکھنے والے ماہرینِ نفسیات تکیہ کلام کے غیر ضروری اور بے جا استعمال کو لاشعور میں گھس بیٹھیے ’کسی خوف‘، ’ستائش کی تمنا‘ یا ’احساس محرومی‘ کے مداوے کی خواہش کا مظہر قرار دیتے ہیں جس کی جڑ تک پہنچے بغیر اس غیر ضروری عادت سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔
ماہرین کی رائے اپنی جگہ مسلّم لیکن ایک عام آدمی کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ کہنے والے کی طرح سامع کا وقت بھی قیمتی ہے اور اس قیمتی دولت کو بے جا الفاظ کے چولہوں میں مت جھونکیں اور سب سے بڑھ کر مجرب نسخے ’پہلے بولو پھر تولو‘ سے کام لیں تو کافی افاقہ ہوسکتا ہے۔
تکیہ کلام تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے لیکن کچھ لوگ ’بدکلامی‘ سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ذو معنی اور طنزیہ گفتگو سارے کیے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہیں۔
وزیرِاعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات (جو اب سابق بن چکی ہیں) فردوس عاشق اعوان اور گورنر سندھ عمران اسماعیل احساس پروگرام سے مالی کفالت حاصل کرنے والی خواتین سے جگت بازی سے بھی باز نہ آئے۔ بدکلامی اور جگت بازی پر پھر کبھی بات ہوگی۔
سیاست، سائنس اور ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو پہلا عشق ہے اور غالب وجہ عشق۔ غالب کے ہی اس شعر کو اپنا تعارف کہتے ہیں۔ فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں، میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔ بلاگر سے saneeq90@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔