پاکستان

کمیشن کیلئے 25 اپریل تک چینی، آٹے کی تمام ملز کا آڈٹ 'ناممکن' تھا، حکومتی عہدیدار

مطلوبہ فرانزک ماہرین کی تلاش اور ملز کی بندش جیسی رکاوٹیں جامع آڈٹ کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنیں، رپورٹ
|

اسلام آباد: چینی اور آٹے کے بحران کی فرانزک تحقیقات سے آگاہ سینئر حکومتی عہدیدار نے کہا ہے کہ 'مطلوبہ' فرانزک ماہرین کی تلاش اور ملز کی بندش جیسی رکاوٹیں جامع آڈٹ کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ بنیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کمیشن کو 25 اپریل تک فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں خوراک کے بحران میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین اور وزیر خوراک خسرو بختیار، پی ٹی آئی کے اتحادی رہنما مونس الٰہی، ان کے قریبی رشتہ داروں کی مبینہ مداخلت سامنے آئی تھی۔

حکومتی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ انکوائری کمیشن کے لیے چینی اور آٹے کی تمام ملز کا فرانزک 3 ہفتوں میں کرنا ناممکن تھا اسی لیے کمیشن نے رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت مانگی۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ 28 اپریل کو شوگر آڈٹ سے متعلق فیصلہ کرے گی

انہوں نے کہا کہ اگر چینی کے کچھ تاجروں کی بدعملیاں میڈیا کی جانب سے بے نقاب نہیں کی جاتیں تو اس رمضان میں ایک کلو چینی کی قیمت 110 سے 120 روپے فی کلو تک بڑھنے کا امکان تھا۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی حالیہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں چینی کی کھپت میں تیزی سے کمی بھی آئی ہے ورنہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ رپورٹس کی تکمیل میں تاخیر کے لیے حکومت اور کسی ادارے پر تنقید کرنے سے قبل یہ معلوم ہونا چاہیے کہ فرانزک آڈٹ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صنعتوں کے فرانزک آڈٹ کا تجربہ ملک میں نیا ہے جس کے نتیجے میں انکوائری کمیشن کو چینی اور آٹے کے بحران کی تحقیقات میں مشکلات کا سامنا بھی تھا۔

حکومتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم نے فرانزک تحقیقات کا فیصلہ کیا تو ابتدائی طور پر ہم مطلوبہ فرانزک ماہرین نہیں ڈھونڈ سکے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملز کی بندش ایک اور مسئلہ تھا کیونکہ مالکان اس وقت تک اپنی ملز کھولنے کے لیے تیار نہیں تھے جب تک کمیشن کی جانب سے عدم تعاون کی صورت میں ملز خود کھولنے کی دھمکی نہ دی گئی، اس وارننگ پر ملز مالکان نے فرانزک آڈٹ کے لیے فیکٹریاں کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’وزیراعظم نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی‘

عہدیدار نے کہا کہ ملک میں شوگر انڈسٹری میں قیمتوں میں اضافے کا غیر رسمی اور خفیہ نظام موجود تھا جو سٹہ کہلاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس رپورٹس ہیں کہ اس رمضان میں سٹے کے ذریعے چینی کی قیمت فی کلو 110 سے 120 روپے تک بڑھائی جاسکتی تھی لیکن جب انکوائری رپورٹس میڈیا میں شائع ہوئیں تو غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد نے چینی کی قیمتوں میں اضافہ روک دیا۔

حکومتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ شوگر انڈسٹری میں سٹہ کیسے کھیلا جاتا ہے فرانزک رپورٹ اس کی تفصیل بیان کرے گی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ کمیشن نے رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت مانگی ہے جبکہ وفاقی کابینہ 28 تاریخ کو درخواست سے متعلق فیصلہ کرے گی۔

چینی بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ

واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے'۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھاکہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

قومی توانائی میں ہائیڈرو پاور کا حصہ تیزی سے کم ہونے کا امکان

این ٹی ڈی سی عالمی تصفیے کے تحت ایرانی کمپنی سے 71 کروڑ روپے وصول کرے گی

پاکستان میں مزید 619 کیسز سے متاثرین کی تعداد 13947 ہوگئی،3 ہزار سے زائد صحتیاب