امریکی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں، ایرانی صدر
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ہم امریکی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں لیکن خطے میں کسی بھی قسم کے تنازع کا آغاز نہیں کریں گے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق روحانی کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان شدید کشیدگی جاری ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کا یمن میں جنگ بندی میں ایک ماہ کی توسیع کا اعلان
امریکی صدر اور امیر قطر کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کے ایک دن بعد ایران کے صدر کا قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے رابطہ ہوا جس میں انہوں نے امیر قطر کو خطے میں کوئی تنازع شروع نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
حسن روحانی نے گفتگو میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کی سختی سے نگرانی کر رہا ہے لیکن ہم خطے میں کسی بھی تنازع اور تناؤ کے آغاز کا سبب نہیں بنیں گے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو امریکی نیوی کو حکم دیا تھا کہ سمندروں میں اگر ایرانی کشتی امریکی کشتیوں یا جہازوں کو ہراساں کرتی ہے تو اس پر حملہ کردیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے رمضان میں سیز فائر کا مطالبہ مسترد کردیا
رواں ماہ کے اوائل میں امریکی فوج نے کہا تھا کہ خلیج میں 11 انقلابی گارڈ نیول ویسلز، امریکی نیوی اور کوسٹ گارڈ کی کشتیوں کے قریب آ گئی تھیں اور امریکا نے اس اقدام کو خطرناک قرار دیا تھا۔
ایرانی حکام نے جمعرات کو بیان میں کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسروں کو دھمکیاں دینے کے بجائے کورونا وائرس سے متاثرہ امریکی فوجیوں کے علاج پر توجہ دیں۔
ہزاروں امریکی فوجی کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں جن میں سے سیکڑوں ایئر کرافٹ کیریئر سمیت مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں اور وائرس سے اب تک 2 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت میں کورونا وائرس کے رجحان کے برعکس شرح اموات کم
ایران کے پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے کہا تھا کہ میں نے اپنی بحری افواج کو حکم دیا ہے کہ خلیج فارس میں امریکی دہشت گرد فوج ہماری کسی فوجی یا غیر فوجی جہاز یا کشتی کے لیے سیکیورٹی خطرہ بن رہی ہو تو اسے تباہ کر دیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ خلیج فارس کی سیکیورٹی ایران کی اسٹریٹیجک ترجیحات کا حصہ ہے۔
ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی رواں سال کے آغاز میں اس وقت انتہا پر پہنچ گئی تھی جب عراق میں امریکی فضائی حملے میں القدس فوج کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے تھے اور اس کے حملے کے بعد دونوں فریقین میں جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔