امریکا کی کنیکٹکیٹ یونیورسٹی میں نئے نوول وائرس کے خلاف قدرت کے طاقتور ہتھیار الٹرا وائلٹ روشنی کے اثرات کو دیکھا گیا جو ڈی این اے کو نقصان پہنچانے، وائرسز کو مارنے اور صحت مند جلدی خلیات کو کینسر زدہ کرنے کے لیے جانی جاتی ہے۔
محققین نے کہا 'ہم نے دریافت کیا کہ الٹرا وائلٹ روشنی سے کووڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار کو سست کیا جاسکتا ہے'۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ بیماری عارضی طور پر گرم موسم میں سست ہوسکتی ہے، خزاں میں واپس اور اگلی سردیوں میں پھر عروج پر ہوسکتی ہے۔
تاہم محققین نے یہ بھی کہا کہ تحقیق کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے شبہات بہت زیادہ ہیں۔
اور ایسا درست بھی لگتا ہے کیونکہ یہ وبا دنیا بھر میں پھیل چکی ہے اور کچھ گرم موسم والے ممالک بشمول آسٹریلیا اور ایران میں بھی بہت تیزی سے پھیلی۔
اس نئی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ گرم موسم شاید مدد دے سکے مگر اس کے ساتھ ساتھ سماجی دوری کے اقدامات پر عملدرآمد بھی ضروری ہوگا۔
اس سے قبل رواں ماہ ہی امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز نے نمی اور درجہ حرارت سے وائرس پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا تھا کہ اس سے جراثیم پر معمولی اثرات ہی مرتب ہوتے ہیں۔
وائٹ ہائوس کی کورونا وائرس ٹاسک فورس کی جمعرات کو بریفنگ کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہوم لینڈ سیکیورٹی کی تحقیق کے نتائج کا ذکر کیا تھا جس کے مطابق سورج کی روشنی اور جراثیم کش محلول جیسے بلیچ اور الکحل سے سطح پر موجود کورونا وائرس کو 30 سیکنڈ میں مارا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا 'میں یہاں تجاویز دینے کے لیے موجود ہوں کیونکہ ہم اس وبا سے چھٹکارا پانے کے لیے منصوبے بنانا چاہتے ہیں اور اگر دھوپ اور سورج کی روشنی اچھی ہے تو میری حد تک یہ ایک عظیم چیز ہے'۔
اگرچہ اس طرح کا خیال ابھی محفوظ علاج نہیں مگر سائنسدان عرصے سے جانتے ہیں کہ سورج متعدد ننھے جراثیموں کے لیے خطرہ ہے۔
2 دہائی قبل برطانیہ کے مائیکرو بائیولوجسٹ جان پوسٹیج نے اپنی کتاب میں لکھا تھا 'سورج کی روشنی متعدد ننھے جراثیموں کو بہت تیزی سے ختم کردیتی ہے، اس کی وجہ شمسی تابکاری سے لیس الٹراوائلٹ جز ہے'۔
اس وبا کے دوران حفاظتی آلات کی کمیک کے باعث کچھ طبی مراکز میں الٹرا وائلت روشنی کو فیس ماسک جراثیموں سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ ان کو دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔
تاہم ماہرین انسانوں کے لیے اسے خطرناک قرار دیتے ہیں۔
امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رابرٹ آر ریڈ فیلڈ نے گزشتہ ماہ توقع ظاہر کی تھی کہ گرم موسم سے بیماری پر اثرات مرتب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا 'بیشتر نظام تنفس کے وائرس موسم کے مطابق کام کرتے ہیں، تو یہ خیال اس نئے وائرس کے لیے بھی قابل فہم ہے، ہمیں انتظار کرنا ہوگا، مگر میرے خیال میں ہم میں سے بیشتر اس پر یقین رکھتے ہیں کہ موسم گرم ہونے سے وائرس کے پھیلنے کی رفتار سست ہوسکتی ہے'۔
مگر اس ہفتے انہوں نے اپنے ایک اور انٹرویو میں کہا کہ کورونا وائرس کا اثر خزاں میں مسئلہ بنے گا، جب نئے فلو سیزن کا آغاز ہوگا۔
ماضی میں وائرسز پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کورونا وائرسز الٹرا وائلٹ روشنی میں بہت زیادہ کمزور ہوجاتے ہیں جس کی وجہ ان کا بڑا جینیاتی کوڈ ہے۔
ایک تحقیق میں کہا گیا کہ وائرس میں جتنے ٹارگٹ مالیکیولز ہوں گے، اتنا ہی اس کے جینوم کو سورج اس کی روشنی سے نقصان پہنچے گا۔
سورج کی روشنی کے دیگر پہلو بھی انسانوں کو آسانی سے متاثر کرنے والے وائرسز کے حوالے سے کردار ادا کرتے ہیں، ایک اہم چیز سورج کی روشنی سے جسم میں وٹامن ڈی بننا ہے، جو ایسا جز ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط کرکے مخصوص امراض کا خطرہ کم کرتا ہے۔
اس نئی تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے اور اسے پری پرنٹ ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔
اس ویب سائٹ کے اصول و ضوابط میں درج ہے کہ نتائج پر ابھی نظرثانی نہیں ہوئی اور انہیں کلینیکل مشق کی رہنمائی کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اگرچہ وائرسز کے خلاف الٹرا وائلٹ روشننی کے اثرات سے ہم بخوبی واقف ہیں، مگر وہ عالمی سطح پر سیزنل کمی کے آثار کو دریافت کرکے حیران رہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقی ٹیم نے ماحولیات اور ارضیاتی عناصر کے وائرس سے ہونے والی بیماری کی رفتار پر اثرات پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال کی اور اس کا اطلاق عالمی سطح پر کیسز پر کیا۔
درجہ حرارت، نمی، آبادی کی عمریں، تعداد، سورج کی روشنی کی الٹراوائلٹ شعاعوں اور کوورنا وائرس کی شرح جیسے عناصر کا امتزاج ایک کمپیوٹر ماڈل پر کرکے سیزنل رجحان کا نقشہ تیار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق میں غیریقینی صورتحال کو بھی مدنظر رکھا گیا جیسے امریکا میں ایسے علاقے جہاں گرمیوں میں وائرس کی شرح میں 20 سے 40 فیصد کمی نہ آنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان کے ماڈل کے مطابق گرم موسم میں کورونا وائرس کے کیسز میں کمی آئی بھی تو بھی سماجی دوری اور دیگر تجویز کردہ اقدامات پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔
ان کا تو کہنا تھا کہ کچھ حالات میں گرم موسم بھی کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کرسکے گا، جیسے کھڑکی کا شیشہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو بلاک کردے گا اور پھر جب کوئی چھینک یا کھانسے گا تو کسی قسم کا تحفظ نہیں مل سکے گا۔
گزشتہ ماہ امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ابتدائی تحقیق میں بتایا گیا کہ گرم علاقوں میں رہنے والی برادریوں میں بظاہر اس کورونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار دیگر مقامات کے مقابلے میں نسبتاً سست ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس کے زیادہ پھیلاؤ والے علاقے وہ ہیں، جہاں درجہ حرارت کم تھا یعنی 3 سے 17 ڈگری سینٹی گریڈ۔
اگرچہ وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرما چل رہا ہے، وہاں بھی کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، مگر 18 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد والے مقامات میں ان کی تعداد عالمی کیسز کے 6 فیصد سے بھی کم ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر قاسم بخاری نے بتایا کہ جہاں درجہ حرارت کم ہوتا ہے وہاں کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، آپ یہ رجحان یورپ میں دیکھ سکتے ہیں، حالانکہ وہاں کا طبی نظام دنیا میں بہترین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درجہ حرارت کے عنصر کا عندیہ امریکا میں بھی ملتا ہے جہاں جنوبی ریاستیں جیسے ایریزونا، فلوریڈا اور ٹیکساس میں واشنگٹن، نیویارک اور کولوراڈو کے مقابلے میں وائرس پھیلنے کی رفتار سست نظر آتی ہے۔
موسم کا یہ اثر اس سے ملتا جلتا ہے جس کا مشاہدہ وبائی امراض کے ماہرین دیگر وائرسز میں کرچکے ہیں۔
اسپین اور فن لینڈ کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ خشک ماحول اور 2 سے 10 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے دوران یہ وائرس تیزی سے پھیلتا ہے۔
اسی طرح چین میں ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے وبا کی روک تھام کے لیے جارحانہ اقدامات کرنے سے قبل ایسے شہر جہاں درجہ حرارت زیادہ اور ہوا میں زیادہ نمی تھی، وہاں وائرس کے پھیلنے کی شرح دیگر کے مقابلے میں سست تھی۔
مگر ان میں سے کسی بھی تحقیق کا جائزہ دیگر سائنسدانوں نے ابھی تک نہیں لیا اور امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے تسلیم کیا ہے کہ عناصر جیسے سفری پابندیاں، سماجی فاصلے کے اقدامات، ٹیسٹوں کی دستیابی اور ہسپتالوں کا بوجھ ممکنہ طور پر مختلف ممالک میں کیسز کی تعداد پر اثرانداز ہوئے۔
درحقیقت سیزنل وائرسز جیسے انفلوائنزا اور موسمی زنزلہ زکام بھی گرمیوں کے دوران مکمل طور پر غائب نہیں ہوتے، بلکہ کسی نہ کسی حد تک لوگوں کے جسموں اور دنیا کے دیگر حصوں میں موجود رہتے ہیں، جہاں وہ دوبارہ پھیلنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں مقامی سطح پر اس وائرس کے پھیلنے سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ گرم درجہ حرارت کے حوالے سے یہ وائرس ممکنہ طور پر زیادہ مزاحمت کرسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ممالک پر فوری اور جارحانہ اقدامات کے لیے زور ڈالا جارہا ہے تاکہ اس کی روک تھام کی جاسکے۔
ایم آئی ٹی کے سائنسدانوں نے خبردار کیا کہ گرم موسم سے وائرس کے پھیلنے کی رفتار میں کمی کچھ ممالک میں بہت کم وقت کے لیے ہی ہوگی۔
اس کے مقابلے میں رواں ماہ کے شروع میں امریکا کے یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے ماہرین نے اس حوالے سے کہا 'وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرم ہے جیسے آسٹریلیا اور ایران، وہاں بھی اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے جس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی اور جگہ بھی نمی اور درجہ حرارت میں اضافے سے کیسز کی تعداد میں کمی آنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا'۔