اسمارٹ لاک ڈاؤن کی نئی اصطلاح اور ہماری ڈیڑھ ہوشیاری
اگر سوچ سیانوں والی اور عمل اناڑیوں والا ہو تو کام کہاں بنتا ہے؟ دراصل یہاں بات ہماری اپنی ہی ہو رہی ہے۔
اسمارٹ لاک ڈاؤن کا چرچا آج کل زبان زدِ عام ہے۔ عمران خان سے لے کر ہر لیٹ لطیف اسی تصور پر بات کر رہا ہے کہ جو حیاتِ انسانی اور روزی کے درمیان حائل خلیج کو پُر کرسکتا ہے۔
کسی اسم یا فعل کے ساتھ اسمارٹ کا لفظ جوڑ دینے کو عام طور پر اسمارٹ یا ہوشیاری والا کام تصور کیا جاتا ہے اور بس اس لفظ کو جوڑ دینے کے بعد آپ کی رائے کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور وہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔
معاملہ یہ ہے کہ اسمارٹ جوڑ دینے سے آپ کا تصور یا رائے حقیقتاً اسمارٹ نہیں بن جاتی۔ موجودہ حالات میں عقلمندی اسی بات میں ہوگی کہ لاک ڈاؤن کے تصور میں اسمارٹ کا تڑکا لگا کر خوش ہونے سے پہلے صرف لاک ڈاؤن کے خیال پر ہماری جانب سے گھڑے گئے معنی و مفہوم کی الجھن کو سلجھایا جائے۔
چند ماہ قبل تک ہم نے صرف ہولی وڈ کی ایکشن فلموں میں ہی لاک ڈاؤن کے الفاظ سن رکھے تھے۔ جن میں بھاری بھرکم اور ظالم سا نظر آنے والا ولن جب ہیرو کو اپنے ٹھکانے سے اسکرین پلے کے لکھاری کی بتائی چیز حاصل کرنے کے بعد فرار ہونے کی کوشش کرتا تو وہ اسے دیکھ کر چنگھاڑتے ہوئے کہتا لاک اٹ ڈاؤن! (سب دروازے بند کردیے جائیں!)