نقطہ نظر

اسمارٹ لاک ڈاؤن کی نئی اصطلاح اور ہماری ڈیڑھ ہوشیاری

ہمیں تو ابھی یہی نہیں معلوم کہ ہم کون سے والے لاک ڈاؤن کی بات کر رہے ہیں ایسے میں اسے نافذ کیسے کیا جاسکتا ہے؟

اگر سوچ سیانوں والی اور عمل اناڑیوں والا ہو تو کام کہاں بنتا ہے؟ دراصل یہاں بات ہماری اپنی ہی ہو رہی ہے۔

اسمارٹ لاک ڈاؤن کا چرچا آج کل زبان زدِ عام ہے۔ عمران خان سے لے کر ہر لیٹ لطیف اسی تصور پر بات کر رہا ہے کہ جو حیاتِ انسانی اور روزی کے درمیان حائل خلیج کو پُر کرسکتا ہے۔

کسی اسم یا فعل کے ساتھ اسمارٹ کا لفظ جوڑ دینے کو عام طور پر اسمارٹ یا ہوشیاری والا کام تصور کیا جاتا ہے اور بس اس لفظ کو جوڑ دینے کے بعد آپ کی رائے کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور وہ ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔

معاملہ یہ ہے کہ اسمارٹ جوڑ دینے سے آپ کا تصور یا رائے حقیقتاً اسمارٹ نہیں بن جاتی۔ موجودہ حالات میں عقلمندی اسی بات میں ہوگی کہ لاک ڈاؤن کے تصور میں اسمارٹ کا تڑکا لگا کر خوش ہونے سے پہلے صرف لاک ڈاؤن کے خیال پر ہماری جانب سے گھڑے گئے معنی و مفہوم کی الجھن کو سلجھایا جائے۔

چند ماہ قبل تک ہم نے صرف ہولی وڈ کی ایکشن فلموں میں ہی لاک ڈاؤن کے الفاظ سن رکھے تھے۔ جن میں بھاری بھرکم اور ظالم سا نظر آنے والا ولن جب ہیرو کو اپنے ٹھکانے سے اسکرین پلے کے لکھاری کی بتائی چیز حاصل کرنے کے بعد فرار ہونے کی کوشش کرتا تو وہ اسے دیکھ کر چنگھاڑتے ہوئے کہتا لاک اٹ ڈاؤن! (سب دروازے بند کردیے جائیں!)

سینما گھر میں لگے بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکروں پر ولن کے احکامات گونجتے تو پردے پر لوہے کے گیٹ اور سلاخوں والے دروازے زور زور سے بند ہونا شروع ہوجاتے جبکہ ہیرو یا ہیروئن بم سے در و دیوار گراتے اور کودتے پھلانگتے پوری رفتار کے ساتھ دشمن کے چنگل سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے۔ مگر ہم سب کو پتا ہوتا ہے کہ اس منظر کا انجام کیا ہوگا۔ آخر میں جب لوہے کا دروازہ بند ہونے میں ابھی کچھ انچ باقی ہوتے ہیں کہ ہیرو جلدبازی میں ایک چھلانگ لگاتا اور دروازے کے نیچے سے پھسل کر نکل جاتا ہے۔ دیکھ لیجیے فلموں میں بھی لاک ڈاؤن لوگوں کو باہر نکلنے سے نہیں روک پاتا۔

اور ہوا یوں کہ یہ لفظ زیادہ خبردار کیے بغیر سلور اسکرین سے سیدھا کود کر ہماری لغت میں شامل ہوگیا۔ اس لیے جہاں ایک طرف دنیا وائرس سے نمٹ رہی تھی تو دوسری طرف ہم لاک ڈاؤن کی درست تشریح تلاش کر رہے تھے۔

ہمارے رہنماؤں نے پھر لاک ڈاؤن کی اعلیٰ اعلیٰ نسلوں سے متعلق ہمیں روشناس کروا کر ہمارا خوب دل بہلایا اور ہم پر ایک ایسا جہان اجاگر ہوا جہاں سندھ کے عمل اور اسلام آباد کے عمل اور سوچ میں اختلاف پایا جاتا تھا۔

لیکن بات یہاں آکر دلچسپ ہوجاتی تھی کہ اختلاف کوئی حقیقی اختلاف نہیں تھا کیونکہ لاک ڈاؤن ایسے لاک ڈاؤن کو کہا جاتا ہے جس میں لاک ڈاؤن ہوتا ہے۔ ہاں اگر لاک ڈاؤن نہ ہو تو پھر یہ کچھ اور ضرور ہوسکتا ہے۔ اوہ خدایا یہ الفاظ اور اس کے معنی و مفہوم تو ہماری جان لے لیں گے۔

تو جب موت جان کو آنے لگی تو ہم میں سے زیادہ تر نے وہی کیا جو ہم اکثر ہر بحران کے وقت کرتے ہیں یعنی کچھ بھی نہیں کیا۔ خیر یہ پورا سچ بھی نہیں ہے۔ ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہم میں سے چند لوگوں نے دیگر کو کیمروں کے سامنے اکٹھا کیا اور پھر لاک ڈاؤن کی تشریحات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ہاں تو معلوم چلا کہ کرفیو والے لاک ڈاؤن اور بغیر کرفیو والے لاک ڈاؤن میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اچھا ہاں ایک بظاہر کرفیو والا بھی لاک ڈاؤن ہوتا ہے۔ اب اس صورتحال میں ظاہر ہے کہ ہم لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے، بھئی دیکھیے نا ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ہم کون سے والے لاک ڈاؤن کی بات کر رہے ہیں ایسے میں اسے نافذ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ جی بالکل، معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ویسے اگر یہ معاملہ اتنا آسان تھا تو کیا سندھ ایسا نہیں کرتا؟

رُکیے رُکیے۔

6 ہفتوں کی اس ڈیڑھ ہوشیاری کے بعد اب ہم اچانک اسمارٹ لاک ڈاؤن کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن پھر جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایک کرفیو والا لاک ڈاؤن ہوتا ہے جو کہ لازماً آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ بغیر کرفیو والے لاک ڈاؤن سے مختلف ہوتا ہے، جو کہ مختلف ہے...

معاملات اب پہلے سے زیادہ مختلف ہیں۔

لیکن اگر ہمارے حوصلے کی ٹنکی اتنی بھرچکی ہے کہ اب پھٹنے کے درپے ہے تو ایسے میں معاملات کو تبدیل ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اگر صرف ارادے میں حوصلہ، قوتِ ارادی اور جاہ و جلال والا رویہ ہو تو پھر اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہ جاتی کہ وائرس کا مقابلہ کس طرح کیا جارہا ہے۔

اب اسمارٹ کا مطلب ہے پُرکشش۔ اب کشش نئے کاموں کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہم نے وہ کام ٹی ٹی کیو کی صورت میں دیکھ بھی لیے۔ تو اگلی بار جب آپ سے کوئی پوچھے کہ آپ لوگ وائرس سے کس طرح نمٹ رہے ہیں تو ان سے آپ کہہ سکتے ہیں ٹی ٹی کیو کی مدد سے۔

یہ دراصل اسمارٹ لاک ڈاؤن کا 'اسمارٹ' حصہ ہے۔ تو جناب اب ایک ساتھ 3، 3 کام کیے جا رہے ہیں۔

اب یہاں معاملہ مضحکہ خیز ہے۔ جس کا اندازہ ٹی ٹی کیو کی راہ پر گامزن ہونے کے ساتھ ہوا۔ ہم اسمارٹ یا ہوشیار بن گئے۔ ہاتھ آنے والی یہ ہوشیاری اس نئی روشن حکمتِ عملی میں نمایاں نظر آ رہی ہے جو مزدوروں کے معقول حصے کے گرد گھومتی ہے۔ اب ہمارے ہاں فیصلہ سازوں کی 2 درجہ بندیاں ہیں، پہلے وہ ہیں جو لاک ڈاؤن کے مفہوم پر دن رات ایک کیے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے وہ ہیں جو ٹی ٹی کیو کر رہے ہیں۔

دونوں اپنے اپنے عزم و ارادے میں اٹل اور اپنے کام پر بھرپور توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ پہلے والوں کا حوصلہ بلند ہی رہے گا اور وہ اس وقت تک ناکام نہیں ہوں گے جب تک وہ لاک ڈاؤن کی ایک ایسی تعریف کو مرتب نہیں کرلیتے جو وقت کے امتحان اور عام فہم کے تقاضوں پر پورا اترتی ہو۔ دوسرے والے اب اگلے مرحلے میں قدم رکھ رہے ہیں۔

اس مرحلے پر مصنوعی ہوشیاری کے برعکس فطری ہوشیاری درکار ہے۔ ٹیسٹنگ کٹوں سے پوری طرح لیس لوگوں کی ہوشیار ٹیمیں پورے ملک میں پھیل کر اکا دکا لوگوں کا ٹیسٹ کریں گی۔ جب انہیں وائرس سے متاثرہ کوئی شخص ملے گا تو پھر یہ ہوشیار لوگ ان سب لوگوں کا پتا لگائیں گے جو ان وائرس زدہ افراد کے ساتھ کسی نہ کسی صورت رابطے میں آئے تھے۔

ٹریکنگ کا یہ کام وہ لوگ ہوشیار آلات اور ضرورت سے زیادہ ہوشیار ذہن کے ساتھ کریں گے۔ جیسے ہی ان لوگوں کو ڈھونڈ لیا جائے گا تو یہ ان کا ٹیسٹ کریں گے اور قرنطینہ کردیں گے۔ پھر ان کے رابطے میں جو لوگ آئیں ہوں گے ان کی تلاش شروع ہوگی اور پھر انہیں ٹیسٹ کیا جائے گا اور سلسلہ چلتا رہے گا۔

اگر کسی جگہ پر متعدد لوگ وائرس کا شکار ہوں گے تو پھر ان مخصوص علاقوں کو لاک ڈاؤن کردیا جائے گا، اور اس سرزمین پر اس وقت تک ہوشیارپن کا مظاہرہ کیا جاتا رہے گا جب تک کہ وائرس کے ہر ایک ممکنہ پہلو پر غلبہ نہیں پالیا جاتا۔

ماسوائے لاک ڈاؤن کی تعریف یا مفہوم کے۔


یہ مضمون 25 اپریل 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فہد حسین

لکھاری اسلام آباد میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔