نقطہ نظر

’میں 3، 4 لاکھ کما لیتی تھیں، لیکن کورونا کے بعد ایسا نہیں ہوسکے گا‘

سیاح یہ خوش کن نظارہ دیکھنے بڑی تعداد میں آتے تھے مگر اس سال کورونا وائرس کی نحوست نے سبھی سیاحوں کے قدم روک دیے۔

'موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے' لیکن موسم بدلنے کے باوجود اس بار اہلِ جنوں کہیں نہیں کہ جن کے سر میں سیاحت کا سودا اور پاؤں کا چکر انہیں پہاڑوں میں لے جا کر دم لیتا ہے۔ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کبھی ’کے ٹو‘، کبھی ’نانگا پربت‘ یا ’راکا پوشی‘ پر پہنچ کر اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں۔

اس سال منظرنامہ بدل چکا ہے۔ گوکہ وقت کی رفتار وہی ہے۔ فطرت کا کیلنڈر بھی اپنی رفتار سے صفحے پلٹ رہا ہے۔ پہاڑوں کا سرد ترین موسم کسی ڈراؤنے خواب کی طرح گزر چکا، بہار اپنے ساتھ نئے خواب لے کر آئی۔ برف پگھلنے لگی، بھورے ریچھ سرمائی نیند سے جاگ اُٹھے، پرندوں نے پروں سے برف جھاڑی اور اڑان بھر لی، چیری اور خوبانی کے درخت شگوفوں سے لد گئے، فطرت نے اپنی باہیں کھول دیں، لیکن آنے والے کہیں نہیں ہیں۔ برف پوش پگڈنڈیاں انسانی قدموں کی راہ تک رہی ہیں اور ان کے ساتھ مانسہرہ کی ماریہ بھی!

مانسہرہ کی نوجوان پُرعزم ماریہ گل پاکستان کی پہلی لڑکی ہے جس کی Pak Explorance Tours نامی اپنی رجسٹر شدہ ٹؤر آپریٹنگ کمپنی ہے۔

ماریہ پاکستان کی پہلی ایسی لڑکی ہے جنہوں نے سیاحت کے حوالے سے 'سسٹین ایبل فاؤنڈیشن' کے زیرِ اہتمام باقاعدہ کورسز کیے ہیں۔ وہ اس میدان میں خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے اتری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خیبرپختونخوا میں کسی بھی خاتون کی کوئی باقاعدہ ٹؤر آپریٹنگ کمپنی نہیں ہے۔ جو لوگ گاڑیاں کرائے پر فراہم کرتے ہیں زیادہ تر وہی تھوڑی بہت سیاحوں کی رہنمائی کردیتے ہیں کہ انہیں کون سے علاقے دیکھنے چاہئیں‘۔

ماریہ کا خیال تھا کہ ’کسی لڑکی کو ٹؤر آپریٹر یا ٹؤرسٹ گائیڈ دیکھ کر سیاح خواتین خصوصاً وہ جو اکیلی یا خواتین گروپ میں ہوتی ہیں انہیں ضرور حوصلہ ملے گا۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں مقامی اور غیر ملکی سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے انہیں یقین تھا کہ وہ خواتین کی بہت بڑی تعداد کو اس جانب راغب کرلیں گی۔ لیکن صلاحیت، عزم اور انتھک محنت کے باوجود کورونا وائرس ان کے لیے راستے کا پتھر بن گیا‘۔

ماریہ کا کہنا ہے کہ 'ہم نے اپنی پوری تیاری کر رکھی تھی۔ میری کمپنی کے ساتھ کئی غیر ملکی کوہِ پیماؤں کی بکنگ ہوچکی تھی جن میں خواتین بھی شامل تھیں اور ہم نے ان کے لیے بہت دلچسپ اور منفرد نوعیت کے پروگرام ترتیب دیے تھے۔ اس کے علاوہ بے شمار مقامی سیاحوں نے بھی ہماری کمپنی سے بکنگ کی ہوئی تھی لیکن سب کچھ الٹ پلٹ گیا‘۔

ایک ماریہ ہی کیا، دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی کورونا نامی بلا نے دنیا بھر کے تخت و تاج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پچھلے 4 مہینوں میں ہر صنعت منہ کے بل زمیں بوس ہوچکی ہے۔

سیاحت کا شمار بھی دنیا کی بڑی صنعتوں میں کیا جاتا تھا، لیکن اس کا بھی دم حلق میں آچکا ہے۔ پاکستان کی معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔ سیاحت سمیت بہت سے شعبے زوال پذیر ہوچکے ہیں۔

رواں سال یا سال 2020ء کو حکومتِ پاکستان نے 'سیاحت کا سال' قرار دیا تھا اور اس صنعت سے وابستہ افراد بہت اچھی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ ان افراد کی تعداد بلا مبالغہ ہزاروں میں ہے جو سیاحت کی صنعت سے براہِ راست یا بالواسطہ منسلک ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان سب کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں۔

ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے ایک سالہ دورِ حکومت میں سیاحت کے شعبے پر بہت توجہ دی اور سیاحوں خصوصاً غیر ملکیوں کے لیے بہت سی سہولیات اور آسانیاں مہیہ کیں جن میں آن لائن ویزا سب سے اہم ہے۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر پاکستان کو عالمی سطح پر سیاحوں کا پسندیدہ مقام قرار دیا گیا۔

اس حوالے سے پاکستان آنے والی عالمی شخصیات جن میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کی بہن رینڈی زکربرگ اور برطانیہ کے شاہی جوڑے کا بھی اہم کردار ہے۔ ان کی آمد سے عالمی سطح پر پاکستان ایک محفوظ ملک کے طور پر بھی اجاگر ہوا۔ حکومت کو امید تھی کہ وہ سیاحت کی صنعت پر برابر سرمایہ کاری کرتی رہے گی اور اندازے کے مطابق 2025ء تک یہ صنعت ایک کھرب ڈالر ریونیو پیدا کرنے کے قابل ہوجائے گی۔

پاکستان میں سیاحت کو عموماً مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے لیکن دھیرے دھیرے یہاں بھی مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ اب بہت سی خواتین اکیلی بھی اور گروپ کی صورت میں سیاحت کرتی نظر آتی ہیں لیکن یہ پہلا تجربہ ہے کہ کوئی لڑکی بطور ٹؤر آپریٹر اپنی کمپنی چلائے اور سیاحوں کی رہنمائی کرے۔

ماریہ نے انگریزی میں ماسٹرز کرنے کے بعد کچھ انوکھا کرنے کے بارے میں سوچا تھا۔ ان کا علاقہ مانسہرہ بلکہ پورا خیبرپختونخوا خوبصورت نظاروں اور بلند و بالا چوٹیوں سے مزین ہے لہٰذا ماریہ نے سوچا کہ ایسے نئے مقامات بھی سامنے لانے چاہئیں جو ابھی تک نامعلوم یا غیر دریافت شدہ ہیں اور جہاں ابھی تک انسانی قدم نہیں پہنچے۔ ماریہ کا خیال تھا کہ اس طرح ان علاقوں سے دباؤ ختم یا کم ہوجائے گا جہاں بہت زیادہ سیاح جاتے ہیں مثلاً ناران، کاغان اور وہاں کی خوبصورتی کو انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی آلودگی چاٹ رہی ہے۔

ماریہ کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اپنے کلائنٹ سیاحوں خصوصاً غیر ملکیوں کو پاکستان کے ان علاقوں کی ثقافت سے بھی روشناس کروائیں گی اور یوں پاکستان کا مثبت چہرہ بھی اجاگر ہوسکے گا۔

ماریہ ہی کی ہم خیال آیوشہ سحر بھی ہیں۔ ان کا تعلق بہاولپور کے ایک روایتی زمیندار گھرانے سے ہے۔ وہ بھی خواتین کے حوالے سے سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ وہ سول سروس میں جائیں مگر آیوشہ کو پہاڑوں کی چوٹیاں اور سرسبز نظارے صدائیں دیتے سو انہوں نے ایسے ہی کیریئر کا انتخاب کیا جہاں وہ فطرت کے قریب رہ سکیں اور اس کے لیے سیاحت سے بہتر کوئی شعبہ نہیں تھا۔

آیوشہ نے کام کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ اسلام آباد میں ان کا فلیٹ ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے مارگلہ پہاڑوں کا خیرہ کن نظارہ سامنے ہی دکھائی دیتا ہے۔ انہیں خیال آیا کہ دوسرے شہروں یا ملکوں سے آنے والی خواتین کے لیے یہ نظارہ بہت پُرکشش ہوگا، اسی سوچ کے تحت آیوشہ نے خواتین سیاحوں خصوصاً غیر ملکی خواتین کے لیے اپنے فلیٹ کے دروازے کھولے، بہت کم پیسوں میں وہ انہیں اپنا مہمان بناتیں۔

آیوشہ کی جانب سے پُرتپاک استقبال اور مہمان داری ان غیر ملکی خواتین کو بہت متاثر کرتی۔ واپس جاتے ہوئے وہ یہ ضرور کہتیں کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان اتنا خوبصورت، اس کے لوگ اتنے مہمان نواز اور اتنے روشن خیال ہیں کہ لڑکیاں سیاحت میں کام کررہی ہیں۔ آیوشہ سوشل میڈیا پر خواتین سیاحوں سے رابطے کرتی ہیں اور کامیابی سے اپنا ٹریول گروپ چلا رہی ہیں۔

اگر سیاحوں کے پسندیدہ علاقے گلگت بلتستان کی بات کریں تو اس علاقے میں سیاحت کوئی نیا شعبہ نہیں۔ اس خطے میں سب سے پہلے اٹلی کے سیاحوں نے قدم رکھا۔ یہ 1909ء کی بات ہے جب پہلی بار ایک اطالوی سیاح نے ان پہاڑی علاقوں میں قدم رکھا اور انہیں ان پہاڑوں نے گرویدہ بنالیا۔ انہی کی زبانی اس علاقے کی خوبصورتی کی خوشبو اٹلی اور یورپ کے لوگوں تک پھیلی۔

دوسرا اطالوی سیاح فلیپینو دی فلیپی تھے جو اپنے کسی تحقیقی منصوبے کے لیے یہاں آئے تھے اور انہیں بھی پہاڑوں نے اسیر کرلیا۔ انہوں نے پورے 2 سال (1914ء-1913ء) یہاں گزارے۔ وہ فوٹوگرافر بھی تھے اور اس علاقے کی تمام خوبصورتی اس نے اپنی تصاویر کے ذریعے لوگوں تک پہنچادی۔

پہاڑوں کی یہ کشش بڑھتی چلی گئی اور ہر سیزن میں اطالوی اور یورپی سیاحوں کا یہاں آنا معمول بن گیا۔ کوہِ پیمائی بھی ہوتی رہی اور پھر بالآخر 1954ء میں ایک اٹالین کوہِ پیما لینو لیسی ڈیلی نے 'کے ٹو' کو تسخیر کرکے تاریخ رقم کردی۔

بعد ازاں اٹلی ہی کے لوگوں نے 2004ء میں 'کے ٹو' کی تسخیر کے 50 سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی منائی اور محبت سے 'کے ٹو' کو اپنا پہاڑ ڈکلیئر کیا۔

اٹلی ہی کی معاونت سے قائم ہونے والی ایک تنظیم 'کے ٹو سی این آر' کے اسکردو دفتر میں 'کے ٹو میوزیم' قائم کیا گیا جس میں کے ٹو پہاڑ کا ماڈل موجود ہے اور کے ٹو کی تسخیر کی مکمل تاریخ تصاویر کے زریعے بیان کی گئی ہے۔ ہمیں بھی پچھلے سال یہ 'کے ٹو' میوزیم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

گلگت بلتستان میں اس وقت بہار کا موسم ہے۔ چیری اور خوبانی کے درخت پھولوں سے لد چکے ہیں۔ ان کی مسحور کن مہک دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح چیری بلوسم کا یہ خوش کن نظارہ دیکھنے بڑی تعداد میں آتے تھے مگر اس سال کورونا وائرس کی نحوست نے سبھی سیاحوں کے قدم روک دیے اور کئی غیر ملکی مہمات منسوخ ہوچکی ہیں۔

'سسٹین ایبل ٹؤرزم فاؤنڈیشن' کے آفتاب رانا کے مطابق ’ورلڈ ٹریول اینڈ ٹؤرازم کونسل کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2018ء میں عالمی معیشت میں سیاحت کی صنعت کا حصہ 8 کھرب 80 ارب ڈالر تھا اور دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت سے تقریباً 31 کروڑ 90 لاکھ لوگ کسی نہ کسی طور پر وابستہ ہیں۔ ڈر ہے کہ اس عالمی وبا سے صرف ایشیا پیسیفک میں 4 کروڑ 87 لاکھ لوگ بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ اگر صرف پاکستان کی سیاحت کی بات کی جائے تو 2019ء میں تقریباً ایک ارب ڈالر زرِمبادلہ میں کمائے گئے تھے جبکہ اس سال دُگنی کمائی کی امید تھی۔ مقامی حوالے سے آمدنی کے اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر سیاحوں کی بات کی جائے تو ان کا تخمینہ 60 فیصد بنتا ہے۔

سیاحت کی تنزلی سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ متاثر ہورہے ہیں جن میں ہوٹل مالکان، اسٹاف، ٹریول کمپنیاں، ڈرائیور اور پورٹر یا قلی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن یہ تو وہ لوگ ہیں جو صف اوّل میں نظر آرہے ہیں، ان کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں خواتین بھی بالواسطہ طور پر سیاحت سے وابستہ تھیں۔ کئی خواتین اپنے چھوٹے چھوٹے گیسٹ ہاؤسز چلارہی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک اسکردو کی آمنہ غنی بھی ہیں۔

آمنہ نے اسکردو کے ایک محلے میں 'آمنہ گیسٹ ہاؤس' کھولا ہے۔ انہوں نے اپنے گھر کی نچلی منزل گیسٹ ہاؤس کے طور پر مختص کردی ہے جہاں زیادہ تر اکیلی خواتین آکر ٹھہرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’یہاں آنے والی خواتین کو یہ جان کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے کہ گیسٹ ہاؤس کو ایک خاتون چلا رہی ہیں۔ یہ خواتین بہت اطمینان سے ان کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرتی ہیں۔ وہ صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرتی ہیں‘۔ آمنہ کا کہنا ہے کہ ’وہ سال میں 3، 4 لاکھ کما لیتی تھیں لیکن اس سال ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

سدپارہ جھیل کے کنارے سدپارہ گاؤں کی روزی بی کا کہنا ہے کہ 'یہاں کی ہر عورت روایتی گلہ بان تو ہے مگر ہم اب آلو اور سبزیاں بھی اگاتی ہیں کیونکہ اب ہمارے لیے آلو کی فصل اور سبزیاں ہی کیش کروپ ہیں‘۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’دو تین کینال زمین پر آلو کی کاشت سے ایک لاکھ اور سبزیوں سے 50 ہزار سالانہ مل جاتے ہیں۔ سبزیوں اور آلو کی طلب میں اضافے کی ایک وجہ ٹؤرازم کو ملنے والا فروغ ہے‘۔

اس سال سیاحت سے وابستہ لوگ کیا کریں گے، اس حوالے سے آفتاب صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے اس صنعت سے وابستہ افراد کی مدد کے لیے حکومت کی جانب سے ایک امدادی پیکج تجویز کیا تھا۔ وفاقی حکومت نے اسے منظور کرتے ہوئے ایک اعلیٰ پیمانے کی 'ٹؤرازم ریکوری کمیٹی' قائم کردی ہے اور اگلے پیر کو اس کی پہلی میٹنگ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کا نتیجہ اچھا نکلے گا۔

ہمیں توقع ہے کہ ایسے کسی بھی فیصلے میں ان خواتین کو بھی مدِنظر رکھا جائے گا جو سیاحت سے براہِ راست وابستہ لوگوں کی گنتی میں نہ سہی مگر جن کی خدمات اس صنعت کے لیے کسی سے بھی کم شمار نہیں کی جاسکتیں۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔