اس بار ماہِ رمضان ہمارے لیے بہت ساری ذمہ داریاں بھی ساتھ لایا ہے
ملک کے مستقبل کا دارومدار بڑی حد تک اس بات پر ہوگا کہ حکومت اور عوام ماہِ رمضان میں جنم لینے والے چیلنجوں سے کتنی اچھی یا بُری طرح نمٹیں گے۔
ایک طرف جہاں حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے کہ وہ عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے کیا ضروری اقدامات کرتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو کتنی اچھی طرح بروئے کار لاتی ہے تو عوام کو اپنے جذبات اور تنگ نظر مفاد کے بجائے معقول پسندی ثابت کرنی ہوگی۔
ماہِ صیام میں نمودار ہونے والے طاقتور پریشر گروپس سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے عوام اور حکومت دونوں کو عزم و ہمت کی ضرورت ہوگی۔
پہلا پریشر گروپ علما پر مشتمل ہے جنہوں نے تراویح، جمعے کے اجتماعات اور اعتکاف کے سلسلے کو بلا تعطل جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ لیکن چند علما نے حکام کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ ان میں سے ایک مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔