دنیا

اجتماعی عبادات پر بندش اور وبا کے دنوں میں رمضان کا آغاز

دنیا بھر کے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس بار مختلف رمضان المبارک دیکھ رہے ہیں۔

کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کے باعث اجتماعی عبادات پر پابندی و مذہبی مقامات کی بندش سمیت بڑے پیمانے پر مارکیٹوں اور روایتی کھانوں کے مراکز کے بند ہونے کے دنوں میں دنیا بھر میں 25 اپریل کو مسلمانوں کے لیے سب سے اہم اور مقدس ماہ رمضان کا آغاز ہوگیا۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و انڈونشیا سمیت متعدد اسلامی ممالک میں ماہ رمضان کا آغاز 24 اپریل کو ہی ہو چکا تھا اور کروڑوں افراد نے 24 اپریل کو پہلا روزہ رکھا اور 23 اپریل کی شب کو پہلی تراویح بھی ادا کی۔

تاہم 25 اپریل سے دنیا کے باقی تمام ممالک میں بھی ماہ رمضان کا آغاز ہوگیا جو کہ یقیناً ماضی کے رمضانوں سے بہت مختلف ہے۔

اس بار ماہ رمضان ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اسلامی ممالک میں بھی کورونا وائرس جیسی وبا پھیلی ہوئی ہے اور اسی وبا کے باعث مذہبی عبادت گاہوں کو ہی بند کردیا گیا ہے۔

ماہ رمضان کی وجہ سے اگرچہ کئی اسلامی ممالک نے کورونا سے بچاؤ کے لیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں نرمی کی ہے، تاہم اس باوجود تقریبا تمام ہی مسلم ممالک میں اجتماعی مذہبی عبادات، سحر و افطار پر پابندی عائد ہے، جس وجہ سے اس بار کروڑوں مسلمان ایک منفرد رمضان کو دیکھ رہے ہیں۔

دنیا بھر کے مسلمان ماہ رمضان میں اجتماعی طور پر مساجد میں عبادات کرنے سمیت اجتماعی سحر و افطار کا انتظام بھی کرتے ہیں جب کہ اسی مہینے میں تمام ممالک میں ماہ رمضان کی مناسبت سے روایتی کھانوں کے خصوصی اسٹال بھی لگائے جاتے ہیں لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں۔

اس بار دنیا کے تقریباً ڈیڑھ ارب مسلمان ایک مختلف رمضان کو دیکھ رہے ہیں اور وہ وبا کی وجہ سے اپنی عبادتوں کو محدود کرنے سمیت اجتماعی سحر و افطار پارٹیوں کا اہتمام بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔

ساتھ ہی اس بار تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک میں کاروباری مراکز و مارکیٹیوں کی بڑے پیمانے پر بندش کے باعث روزے دار اپنے پسندیدہ روایتی کھانے بھی خریدنے سے قاصر ہیں، تاہم کئی ممالک کی حکومتوں نے روایتی کھانے بنانے والوں کو کاوروبار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے اجتماعی عبادات پر بندش و مذہبی مقامات کو بند کیے جانے سے وہ ممالک زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے اور ایسے ممالک مین انڈونیشیا سر فہرست ہے۔

انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے اور وہاں بھی کورونا کے باعث لاک ڈاؤن نافذ ہے اور اجتماعی عبادات پر پابندی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک کی مذہبی جماعتوں نے بھی حکومت کی طرح لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایات کی ہیں اور لوگوں کو انفرادی طور پر گھروں میں عبادات کرنے کی تجویز دی ہے، تاہم لوگ ایسی تجاویز پر عمل نہیں کر رہے۔

اے ایف پی کے مطابق انڈونیشیا میں 23 اپریل کو ماہ رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد ہی پہلی تراویح کا اہتمام کیا گیا تو ملک دارالحکومت میں ہزاروں لوگوں کے مجمع نے نماز تراویح میں شرکت کی۔

خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے دارالحکومت باندا آچے کی معروف مسجد میں ہزاروں افراد نے نماز تراویح میں شرکت کی اور لوگوں کی تعداد ماضی کے ماہ رمضان کے مقابلے میں زیادہ تھی۔

اسی مسجد میں نماز تراویح کے لیے آنے والے فطرہ رسکیہ کا کہنا تھا کہ انہیں ہزاروں لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے پر کوئی پریشانی نہیں، کیوں کہ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے فیس ماسک پہن رکھا ہے۔

ہزاروں افراد کے ایک ساتھ جمع ہونے پر پابندی کے باوجود انڈونیشیا کے دارالحکومت سمیت دیگر شہروں کی مساجد میں بھی درجنوں افراد کو نماز تروایح ادا کرتے دیکھا گیا۔

انڈونیشیا کی طرح ایشیا کے دیگر مسلم آبادی کے بڑے ممالک کی حکومتوں کو بھی ہزاروں لوگوں کو نماز کے لیے جمع ہونے سے روکنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ایشیا میں ملائیشیا، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ایسے ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ ہے اور ایسے ممالک میں حکومتوں کو اجتماعی عبادات کو محدود رکھنے میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے۔

ماہ رمضان کے آغاز سے قبل ہی بنگلہ دیش کے مذہبی علما نے کہا تھا کہ وہ نماز تراویح سمیت دیگر عبادات کے لیے مساجد میں لوگوں کو آنے سے نہیں روکیں گے۔

جب کہ اسی طرح پاکستان میں بھی حکومت نے 20 احتیاطی تجاویز کے ساتھ مساجد میں محدود افراد کے ساتھ نماز تراویح کی اجازت دی تھی۔

ان ہی ممالک کی طرح ملائیشیا میں بھی ماہ رمضان شروع ہوتے ہی لوگوں کی جانب سے مساجد میں جاکر عبادات کرنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں، تاہم وہاں بھی حکومت نے محدود افراد کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

ملائیشیا کے مذہبی عالم محمد شکری محمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے وبا کے پیش نظر باہر جانا اور لوگوں سے ملنا محدود کردیا ہے، یہاں تک انہوں نے اپنے 6 بچوں اور 18 پوتے، پوتیوں و نواسوں کے ساتھ بھی ملاقاتوں کو محدود کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایک مختلف رمضان دیکھا ہے اور وہ پہلی بار وبا کی وجہ سے مساجد میں جانے سے قاصر ہیں۔

ساتھ ہی محمد شکری محمد کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وبا کو قبول کرنا چاہیے اور اس سے بچاؤ کی تدابیر بھی اختیار کرنی چاہیے۔

ایشیائی مسلم ممالک کی طرح افریقی مسلم ممالک میں بھی اس بار ماہ رمضان کے دوران مختلف معاملات دیکھے جارہے ہیں۔

اگرچہ زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی یعنی تقریباً ایک ارب مسلمان ایشیا میں بستے ہیں، تاہم براعظم افریقہ میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی بستی ہے جو ہر سال مذہبی جوش سے رمضان مناتی ہے، لیکن اس بار وبا کے باعث وہاں بھی رمضان کی رونقیں پھیکی دکھائی دیتی ہیں۔

کئی ممالک میں اجتماعات پر پابندی کے باوجود اجتماعی عبادات کے انتظامات اپنی جگہ لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کو ماہ رمضان میں لاک ڈاؤن کے باعث سحری و افطاری کے لیے روایتی چیزیں خریدنے میں بھی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ایشیا سے لے کر افریقہ و یورپ اور مشرق وسطیٰ تک کئی ممالک کے لوگوں نے اس بار روایتی کھانوں کے بغیر ہی رمضان کا خیر مقدم کیا۔

عالمی ادارہ صحت کی ماہ رمضان کے حوالے سے ہدایات

مسلمانوں کے لیے اہم ترین مہینے شروع ہونے سے قبل 2 دن قبل ہی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ماہ رمضان میں اجتماعی عبادات و سحر و افطاری کے پروگرامات کو نظر میں رکھتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں۔

عالمی ادارہ صحت نے اسلامی ممالک کو خبردار کیا تھا کہ کسی بھی طرح کے اجتماعات خطرے سے کم نہیں ہوں گے اور لوگوں کو درجنوں کی تعداد میں کسی بھی جگہ جمع ہونے سے روکا جائے۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنی ہدایات میں کسی بھی اسلامی ملک کا نام لیے بغیر مسلمان ممالک کو ہدایات کی تھیں کہ اس وقت لوگوں کو جمع ہونے کی آزادیاں نہیں دی جا سکتیں، کورونا کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ پابندیاں اچھا کام کر رہی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس وقت خطرہ موجود رہے گا جب تک کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین نہیں آجاتی اور تب تک احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت دنیا میں کورونا کی ویکسین دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی اگلے کئی مہینوں تک ویکسین کے دستیاب ہونے کے امکانات ہیں۔

اس وقت امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسرائیل و چین سمیت متعدد ممالک کی 70 سے زائد فارماسیوٹیکل کمپنیاں و طبی تحقیقاتی ادارے ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں، تاہم صرف 3 ممالک کی 4 ویکسینوں پر ہی انسانوں کی آزمائش شروع ہوئی ہے۔

اب تک امریکی اداروں کی جانب سے تیار کی جانے والی 2 اور ایک برطانوی اداروں کی تیار کی گئی ویکسین کی انسانی آزمائش شروع کی جا چکی ہے جب کہ جرمنی کے اداروں کی جانب سے تیار کی گئی ایک ویکسین کی آزمائش کا عمل آئندہ ماہ مئی سے شروع ہوگا۔

مذکورہ ویکسین کی آزمائش کی کامیابی کے بعد کم از کم ایک سال بعد ہی کوئی ویکسین دنیا میں دستیاب ہو سکے گی اور عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہوتی تب تک خطرہ موجود رہے گا۔

کورونا وائرس کے دنیا بھر میں 25 اپریل کی شام تک متاثرہ افراد کی تعداد بڑھ کر 27 لاکھ 35 ہزار سے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد ایک لاکھ 92 ہزار تک جا پہنچی تھی۔

مشرق وسطیٰ و خلیجی ممالک میں رمضان کے پیش نظر لاک ڈاؤن میں نرمی

کورونا وائرس: مسجد نبوی ﷺ میں پہلی تراویح باجماعت ادا

پاکستان میں فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے طبی عملے کے 253 افراد کورونا وائرس سے متاثر