اس کے بعد مارچ میں برطانوی سائنسدانوں نے سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کو بھی اس بیماری کی علامات قرار دیا گیا اور اس پر متعدد تحقیقی رپورٹس سامنے آچکی ہیں، جن میں اس خیال کی تائید کی گئی ہے کہ اچانک سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کووڈ 19 کی علامت ہوسکتی ہے، خصوصاً یہ ان مریضوں میں عام ہوتی ہے جن میں دیگر عام علامات نظر نہیں آتیں۔
اس کے علاوہ حال ہی میں یہ رپورٹ بھی سامنے آئی کہ یہ وائرس آنکھوں میں زیادہ طویل عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے اور آشوب چشم بھی اس کی ایک نشانی ہوسکتی ہے۔
اپریل کے شروع میں جریدے امریکن جرنل آف کیٹروانٹرالوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے کچھ مریضوں کو نظام ہاضمہ کے مسائل خصوصاً ہیضے کا سامنا پہلی علامت کے طور پر ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ایسے مریض جن میں ہیضہ پہلی علامت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، ان میں بیماری کی شدت معتدل تھی، نظام تنفس کی علامات بعد میں طاہر ہوئیں بلکہ کچھ کیسز میں تو ایسی علامات نظر ہی نہیں آئیں۔
اور اب ڈاکٹروں نے ایک اور ممکنہ علامت کو شناخت کرلیا ہے اور وہ ہے جلد کی رنگت یا ساخت میں اچانک تبدیلی آنا یا نشان ابھرنا۔
امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسین کے ماہرین نے اس علامت کی نشاندہی کی ہے جسے 'کووڈ ٹوئیز' کا نام دیا گیا ہے، جس میں مریض کے پیروں اور پیروں کی انگلیوں پر جامنی یا نیلے رنگ کے نشان یا زخم ابھر آتے ہیں۔
اس یونیورسٹی کے وبائی امراض کے شعبے کے ماہر ڈاکٹر ایبنگ لوتھنگ بیچ نے بتایا 'یہ زخم یا نشان چھونے پر تکلیف دہ اور ان میں جلن کا احساس بھی ہوتا ہے'۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی ممکنہ نشانی اس لیے بھی زیادہ دلچسپی کا مرکز بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں نظر آرہی ہے جن میں دیگر علامات سامنے نہیں آتیں، بالکل اسی طرح جیسے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی بھی اکثر ان افراد میں دیکھی گئی جن میں اس بیماری کی دیگر علامات کو نہیں دیکھا گیا۔
ڈاکٹر ایبنگ کا کہنا تھا 'یہ واضح ہے کہ ایسا مرض کے ابتدا میں ہوتا ہے، یعنی سب سے پہلے اس کا سامنا ہوتا ہے اور پھر بیماری آگے بڑھتی ہے، کئی بار تو یہ کووڈ 19 کا پہلا سراغ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب دیگر علامات نمودار نہیں ہوتیں؟ کووڈ ٹوئیز کچھ افراد میں ایک ہفتے سے 10 دن میں غائب ہوجاتی ہیں، مگر پھر نظام تنفس کی علامات نظر آنے لگتی ہیں'۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی علامت بچوں اور نوجوانوں میں دیگر عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ نظر آرہی ہے اور ڈاکٹر ایبنگ کا کہنا تھا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کا قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس علامت کو مارچ میں اٹلی کے ٖڈاکٹروں نے دریافت کیا تھا اور جب ماہرین نے اس عجیب نشانی کے بارے میں آگاہ کیا تو امرکا میں زیادہ سے زیادہ کیسز میں اس کی شناخت ہونے لگی۔
ماہرین کے مطابق اس کی واضح وجہ تو معلوم نہیں مگر ممکنہ طور پر 2 وجوہات کووڈ ٹوئیز کا باعث بن سکتی ہے، ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ اس بیماری کے نتیجے میں ورم کے خلاف ردعمل کا اثر پیروں اور انگلیوں میں ہوتا ہے یا یہ خون کی شریانوں میں کلاٹنگ کا سبب ہے، تاہم فی الحال کوئی واضح جواب دینا ممکن نہیں۔
میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کے انتہائی نگہداشت کے شعبے کی سربراہ سوزن ویلکوس نے بھی کووڈ 19 کے بہت زیادہ افراد میں جامنی رنگ کے نشانات دیکھیں اور ان کے خیال میں یہ جسم میں شدید انفیکشن سے ہونے والے ورم سے خون کی ننھی رگوں میں چھوٹے لوتھڑے بننے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا یہ یہ ان مریضوں میں بہت عام ہے جن میں سانس لینے میں مشکلات کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس سامنے آتا ہے اور بیشتر افراد بچ نہیں پاتے۔
انہوں نے بتایا 'جب انفیکشن ہوتا ہے تو آپ کا جسم ورم ریلیز کرتا ہے، متعدد مواقعوں پر یہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے مگر کئی بار یہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے، جس سے خود جسم کو نقصان پہنچنے لگتا ہے'۔