سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی کی بندش پر اختلافِ رائے کیوں؟
کورونا وائرس کے بحران نے عوام کی معاشرتی و معاشی سرگرمیوں کو تقریباً مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن کا فیصلہ ہوا جس نے تو جیسے اقتصادی اور سماجی پہیہ ہی روک دیا۔
صورتحال کے پیشِ نظر اٹھائے جانے والے مختلف نوعیت کے کئی ہنگامی اقدامات عوام اور سیاسی شخصیات کے لیے موضوعِ بحث بنے اور کچھ اب بھی بنے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک اقدام سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈی کی بندش سے متعلق تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ اقدام وبائی پھیلاؤ پر ضابطہ لانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
تاہم اپریل کے پہلے ہفتے میں چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈی کھولنے کا حکم دیا۔ آئیے جانتے ہیں کہ او پی ڈی بند ہونے سے مریضوں کو کون سی مشکلات پیش آئیں اور او پی ڈی کا کھلنا ان کے لیے کیوں ضروری ہے اور یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ ڈاکٹر حضرات عدالت سے اختلافِ رائے کیوں رکھتے ہیں؟
سول ہسپتال کراچی کی او پی ڈی کا احوال
سول ہسپتال کراچی کا سب سے پرانا اور دوسرا بڑا سرکاری ہسپتال ہے۔ 3 دن قبل جب رپورٹنگ کے سلسلے میں سول ہسپتال پہنچے تو وہاں عام مریضوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ صرف سندھ کے دیگر شہروں سے آئے چند مریض ہی نظر آرہے تھے۔
سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کی او پی ڈی کی عمارت پر نوٹ چسپاں تھا کہ 'کورونا وائرس کی وجہ سے او پی ڈی بند ہے'۔ یاد رہے کہ عدالت کے حکم کے باوجود یہاں کام نہیں ہورہا تھا اور عام دنوں میں جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی وہاں اس دن سناٹا تھا۔ ہاں مگر تھیلیسیمیا کی او پی ڈی اور ایمرجنسی وراڈ میں مریض کی ایک قطار نظر آئی۔
سول ہسپتال میں حفاظتی سامان کی قلت ہے جس کا کسی حد تک اندازہ ہسپتال کے دروازے سے باہر نکلتی ہوئی لیڈی ڈاکٹر کو دیکھ کر بخوبی ہوگیا تھا۔ انہوں نے پاؤں پر پلاسٹک کی تھیلیاں چڑھائی ہوئی تھیں جبکہ باہر نکلتے ہوئے اپنی حفاظتی کٹ اتار کر ایک تھیلی میں رکھ دی۔ اب اس کا مطلب تو یہی بنتا ہے کہ اس کٹ کو دوبارہ استعمال میں لانے کا ارادہ کیا جا رہا ہے جو ایک سنگین بے احتیاطی ہے۔
مشاہدے میں یہ بھی آیا کہ کورونا وائرس کے وارڈ میں کام کرنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر 2 سے 3 دنوں تک بخار میں مبتلا رہنے کے بعد ٹیسٹوں کے نتائج تھامے تشویش کے عالم میں دوسری ڈاکٹر سے بات کر رہی تھیں۔
تاہم سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر خادم قریشی نے ہماری بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ 'سول ہسپتال صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے صوبے اور بعض اوقات پنجاب کے مریضوں کو بھی طبّی خدمات فراہم کرتا ہے'۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'لاک ڈاؤن سے پہلے او پی ڈی میں روزانہ مریضوں کی تعداد عموماً 5 ہزار سے 8 ہزار ہوتی تھی جن کی تعداد اب گھٹ کر 1200 سے 1300 تک رہ گئی ہے۔ شروع میں عام او پی ڈی بند کی گئی تھی لیکن جن مریضوں کی حالت تشویشناک تھی انہیں ایمرجنسی میں دیکھا جارہا تھا اور جہاں تک ہسپتال میں ضروری طبّی سامان کی قلت کی بات ہے تو یہ بات بھی درست نہیں'۔
سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈی کے بند ہونے سے مریضوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
مہر النساء نقوی ریٹائرڈ سرکاری اسکول ٹیچر ہیں۔ ذیابطیس کی مریضہ ہونے کی وجہ سے انہیں اکثر انسولین لینا پڑتی ہے اور کبھی طبعیت بگڑ بھی جاتی ہے۔ فی الحال لاک ڈاؤن کے دوران انہیں کسی قسم کا کوئی بڑا طبّی مسئلہ درپیش نہیں آیا البتہ مختلف امراض میں مبتلا ان کے شوہر لاک ڈاؤن کی وجہ سے حسبِ معمول ڈاؤ میڈیکل ہسپتال جانے کے بجائے اب قریبی نجی ہسپتال سے طبّی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن نجی ہسپتال کا خرچہ ایک پینشنر پر اضافی مالی بوجھ سے کم نہیں۔
او پی ڈی کی بندش پر مہر النساء کا کہنا تھا کہ 'جو لوگ بڑے ہسپتالوں میں جاسکتے ہیں، ان کا سرکاری او پی ڈی سے کیا واسطہ؟ سرکاری ہسپتال عام آدمی کا مسئلہ ہے۔ سول، عباسی شہید اور جناح ہسپتال تو ہم جیسے لوگ جاتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لوگ دیگر جسمانی بیماریوں کا شکار ہوں یا نہ ہوں لیکن گھبراہٹ اور ذہنی دباؤ کا شکار ضرور ہو رہے ہوں گے۔ اس طرح کے ماحول میں بہت سی پرانے درد اور تکالیف بھی جاگ اٹھتی ہیں اس وجہ سے او پی ڈی بند کردینا تو لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے اور عام لوگوں کو مزید پریشانی میں مبتلا کرنے کے مترادف ہیں، اس لیے میں بار بار یہ کہنا چاہوں گی کہ او پی ڈی کی بندش کا فیصلہ جتنی جلدی ممکن ہو، واپس لے لیا جائے‘۔
مہر النساء صاحبہ نے سرکار کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے ہاں قطار بنانے کا چلن نہیں ہے اور نہ ہی ہم ہدایتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ہجوم سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شفٹ میں کام کیا جائے اور شفٹوں کے اوقات کم کردیے جائیں۔ شفٹ جلدی شروع کی جائے تاکہ ڈاکٹروں پر بھی دباؤ کم ہو‘۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’کورونا سے بچنے کے لیے حکومت عارضی اقدامات کرے۔ یونین کونسل (یو سی) سطح پر جو ہسپتال اور سرکاری ڈسپنسریاں ہیں وہاں عارضی او پی ڈیز بنا دی جائیں‘۔
کراچی کے علاقے ناظم آباد میں مقیم 80 سالہ رہائشی خالد خان کا کہنا ہے کہ ’میرا 9 مارچ کو عباسی شہید ہسپتال میں آنکھ کا آپریشن ہوا تھا۔ میں شروع سے ہی عباسی شہید ہسپتال میں علاج کرواتا چلا آ رہا ہوں، لیکن کورونا کے بعد وہاں کی تمام او پی ڈی بند ہوچکی ہیں۔ دروازے پر جو 20 روپے کی پرچی بنتی ہے اس کے لیے بھی کوئی آدمی موجود نہیں تھا۔ میرے ابھی 2 ٹانکے کٹے ہیں، جبکہ 2 رہ گئے ہیں۔ ٹانکے کاٹنے کے لیے مجھے ڈاکٹر نے خود فون کرکے بلایا تھا لیکن ڈی ٹی او یعنی بڑا آپریشن تھیٹر بند تھا۔ اس کے بند ہونے کی وجہ سے میرے سارے ٹانکے ایک ساتھ نہیں کٹ سکے۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل کریں۔ عام آدمی کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حال پر رحم کریں اور بیماری سے بچیں‘۔
این آئی سی وی ڈی کی او پی ڈی کی کیا صورتحال ہے؟
محمد سہیل [فرضی نام] نے ہمیں بتایا کہ ’انہیں 4 دن پہلے اپنے والد کو دل کی شکایت کی وجہ سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) لے کر جانا پڑا۔ انتظامیہ نے ہسپتال کے احاطے میں کنٹینروں میں موبائل کلینک بنا دیے ہیں۔ وہاں نئے مریض نہیں لیے جا رہے۔ میرے والد چونکہ پرانے مریض ہیں اور چند ماہ پہلے بھی ہسپتال میں داخل ہوئے تھے اس لیے ڈاکٹر نے انہیں اندر بلا لیا۔ ہسپتال کے احاطے میں سیکیورٹی کے نہایت سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ داخلی دروازے سے لے کر ایمرجنسی تک کئی مقامات پر پوچھا جاتا ہے کہ کہاں جارہے ہو؟ جب تک ہسپتال کے اندر سے ڈاکٹر کال نہیں کرتے تب تک مریض اندر نہیں جاسکتا۔ صرف تشویشناک صورتحال میں مبتلا مریض ہی ہسپتال میں داخل ہوسکتے ہی، ورنہ عام مریضوں کو باہر سے ہی طبّی معائنہ کر کے گھر روانہ کردیا جاتا ہے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’عام مریضوں کو ادویات نہیں مل رہیں اور امراضِ قلب کے شکار مریضوں کو مختلف علاقوں میں موجود موبائل کلینک میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر نہ ECG اور بلڈ پریشر چیک کرنے کی سہولت ہے اور نہ ہی دیگر ضروری ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ میرے والد کا بائی پاس ہونا تھا لیکن ابھی تک نہیں ہوا۔ وہ اندر ہسپتال میں آپریشن کا انتظار کر رہے ہیں‘۔
اس حوالے سے این آئی سی وی ڈی کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر حمید اللہ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے عام او پی ڈی بند کی ہوئی ہے لیکن شہر بھر میں موجود ہمارے 13 یونٹ میں او پی ڈی پہلے بھی چل رہی تھی اور اب بھی فعال ہے۔ وہاں مریض کو دیکھا جاتا ہے اور اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو انہیں این آئی سی وی ڈی بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں ہسپتال کے باہر ہم نے ایک ڈیسک بنائی ہے جہاں آنے والے مریضوں کی اسکرینگ کی جاتی ہے۔ اگر کسی شخص میں علامات ظاہر ہوں تو اسے فوراً آئسولیشن وارڈ میں منتقل کردیا جاتا ہے جہاں مکمل کٹ کے ساتھ ہمارے ڈاکٹر طبّی امداد کی فراہمی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ مزید بتاتے ہیں کہ ’ہم اس وقت صرف ہنگامی حالات میں ہی بائی پاس سرجری اور دیگر آپریشن کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس کورونا سے متاثر ایک مریض آگیا تھا جس نے ہمارے ڈاکٹر اور اسٹاف میں وائرس منتقل کردیا تھا سو احتیاط کے پیش نظر یہ قدم اٹھانا پڑا۔ آج کل ہماری ایمرجنسی میں تقریباً 40 سے 50 مریض دیکھے جارہے ہیں جبکہ اس سے پہلے ہماری ایمرجنسی اور او پی ڈی میں بہت رش رہتا تھا۔ ایمرجنسی میں روزانہ 500 مریض آتے تھے جبکہ جنرل او پی ڈی میں تقریباً ڈھائی ہزار سے 3 ہزار مریضوں کو دیکھا جارہا تھا۔ چونکہ اب صورتحال کافی سنگین ہوچکی ہے لہٰذا ہمیں ان حصوں کو بند کرنا پڑا۔
نجی ہسپتالوں کی او پی ڈی سے مریض نالاں کیوں ہیں؟
بینش صدیقہ 2 سالہ بچی کی ماں ہیں۔ ان کی بیٹی ہائڈرو سفلس (سر میں پانی بھرجانا) کی مریضہ ہے اور ان کے اب تک 3 آپریشن ہوچکے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ 'قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے موسم کا اثر ہو یا کوئی وبائی مرض، میری بیٹی جلد ہی بیمار پڑجاتی ہے۔ بمشکل ہی کوئی ایسا مہینہ رہا ہوگا کہ جس میں ہم سکون سے گھر پر بیٹھے ہوں اور ہمیں او پی ڈی اور ایمرجنسی کے چکر نہ لگانے پڑیں ہوں۔ لاک ڈاؤن کے آغاز سے ہی بچی کو قے اور دست ہونے کے ساتھ بخار کی شکایت ہونے لگی۔ ہم نے کوشش کی کہ بچی کا عام دواؤں سے علاج کرلیا جائے اور ہسپتال نہ جانا پڑے، لیکن ہفتہ دس دن گزر جانے کے بعد بھی اس کی طبیعت میں بہتری نہیں آئی۔ کبھی خیال آتا کہ موسمی بخار ہے اور کبھی یہ فکر ہوتی کہ کہیں یہ اس کی سر کی سرجری کی وجہ سے تو نہیں۔ چونکہ ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند تھیں لہٰذا پہلے ہم نے بچی کو نارتھ کراچی میں موجود بچوں کے سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں دکھایا لیکن خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا اور پھر 2، 3 دن بعد ہم اسے ضیاء الدین ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئے جہاں پر ہمیں بچی کو ایڈمٹ کرنے کے لیے کہا گیا لیکن ہم بچی کو کورونا وائرس کے ڈر سے ہسپتال میں داخل نہیں کروانا چاہتے تھے۔ ہم نے سوچا کہ بچی پہلے ہی کمزور ہے اور کورونا وائرس کی پھیلتی وبا میں وہ گھر میں زیادہ محفوظ رہے گی‘۔
اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم گھر پر بلاناغہ دوائیں دیتے رہے لیکن پھر بھی طبیعت نہ سنبھلی اس لیے مجبوراً بچی کو آغا خان ہسپتال کی ایمرجنسی لے جانا پڑا۔ لیکن وہاں تو لینے کے دینے پڑگئے کیونکہ وہاں بچی میں بخار، الٹیاں اور نیم بے ہوشی جیسی علامات کے باعث کورونا ٹیسٹ کروانا اور آئسولیشن میں رہنا پڑا۔ جبکہ اس طرح کی علامات اکثر اس کے اسٹنٹ لگوانے کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہیں اور ہمیں بھی یہی لگ رہا تھا کہ یہ نیورو کا مسئلہ ہوگا۔ لیکن ایمرجنسی ڈاکٹر نے بچی کو کورونا ٹیسٹ کے بغیر دیکھنے سے انکار کردیا۔ یوں ایک دن مجھے اپنی 2 سالہ بچی کے ساتھ آئسولیشن کے پرائیوٹ روم میں گزارنا پڑا۔ یہ سارا عمل ہمارے لیے اور خود معصوم بچی کے لِیے بہت تکلیف دہ تھا۔ الحمداللہ کورونا ٹیسٹ منفی آیا اور بچی کو نیورو کے ڈاکٹر نے دیکھا اور بتایا کہ سب ٹھیک ہے اور موسمی بخار کی دوا دے کر ہمیں گھر بھیج دیا گیا‘۔
بینش مزید کہتی ہیں کہ ’مجھے او پی ڈی پر رش کم کرنے کے لیے ڈاکٹر کی او پی ڈی کے دن کم کرنے کی تُک سمجھ میں نہیں آئی۔ میں بار بار آغا خان ہسپتال کی او پی ڈی میں فون کرتی ہوں کہ شاید میری بیٹی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر آج کلینک کر رہے ہوں لیکن مجھے فون پر کہا جاتا کہ ایمرجنسی میں آجائیں جبکہ میری بچی کے ساتھ جو مسئلے مسائل ہیں اس کا ایمرجنسی میں مناسب علاج ممکن نہیں۔ بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ کہیں میری بچی کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوجائے۔ وہ پورا پورا دن سوئی رہتی تھی اور میں اسے کچھ بھی پلاتی ہوں تو وہ فوراً الٹی کردیتی تھی۔ اس بار اس کی صحت بہت ہی خراب تھی لیکن ہمیں ہسپتال جانے سے ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ ہسپتال والے ہمیں ایمرجنسی میں نہ بھیج دیں اور پھر ایمرجنسی والے کہیں دوبارہ کورونا کا راگ آلاپنا شروع نہ کردیں اور بنیادی مسئلہ وہیں کا وہیں رہ جائے'۔
ایک حاملہ خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ او پی ڈی کے بند ہونے کی وجہ سے وہ اور ان جیسی دیگر حاملہ خواتین مشکل میں آگئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دوسری بار حاملہ ہوئی ہیں، اور پہلی مرتبہ ان کا 8 ماہ کا حمل ضائع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس بار بہت احتیاط کررہی تھیں۔
وہ ایک نجی ہسپتال کی ڈاکٹر کے زیر نگرانی اپنا معائنہ کرواتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ، 'میں اپنے ڈاکٹر کے پاس ریگولر چیک اپ کے لیے نہیں جا پارہی جس کی وجہ سے کافی تناؤ کا شکار ہو رہی ہوں۔ پھر ساتویں مہینے میں جو ٹیٹنس سے بچاؤ کے انجکشن لگنے ہیں، وہ تاحال نہیں لگ سکے ہیں۔ میری ڈاکٹر ابھی تک او پی ڈی نہیں کر رہیں، لیکن شکر ہے کہ میری پڑوسن کی اس ڈاکٹر سے جان پہچان تھی جس کی وجہ سے کم از کم میں ان سے رابطے میں آگئی ہوں۔ میں نے ان سے فون پر بات کی اور او پی ڈی بند ہوجانے کی وجہ سے اپنے پچھلے الٹرا ساؤنڈ کی جو رپورٹ نہیں دکھا سکی تھی وہ انہیں واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دی اور رپورٹ کی بنیاد پر انہوں نے مجھے طبّی مشورہ دے دیا۔
’لیکن کچھ دن بعد میری طبعیت بہت ناساز ہوگئی تھی، مجھے بچے میں حرکت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے لگا کہ اس بار بھی میں کسی بڑی مشکل میں آگئی ہوں۔ ہم نے وقت ضائع کیے بغیر ایمرجنسی کا رخ کیا، وہاں زیادہ لوگوں کے جانے کی اجازت نہیں تھی، جو درست عمل بھی ہے لیکن یہاں ایک اور مسئلہ سامنے کھڑا ہوگیا۔ دراصل ڈیوٹی ڈاکٹر کی شفٹ ختم ہو رہی تھی اور وہ کوئی نیا مریض نہیں لینا چاہ رہی تھیں۔ میں نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ میرے ساتھ ایمرجنسی ہے۔ انہوں نے میری بات سننے کے بعد الٹرا ساؤنڈ کا کہا۔ میں جب الٹراساونڈ کروانے گئی تو وہاں کا اسٹاف بھی جارہا تھا۔ انہیں بھی بڑی مشکل سے روکا کہ ایمرجنسی ہے اور ڈاکٹر کو رپورٹ دکھانا ضروری ہے، لیکن ان کا انداز ایسا تھا کہ مریض بھاڑ میں جائیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ میرا مسئلہ حل ہوگیا لیکن میں نے دیکھا کہ ہسپتال میں کئی خواتین بیٹھی تھیں جن کے ساتھ ایمرجنسی تھی لیکن ڈاکٹر موجود نہیں تھیں۔ اس لیے میں تمام مرد و خواتین ڈاکٹروں سے درخواست کرتی ہوں کہ او پی ڈی بند نہ کریں۔ گائناکولوجسٹ او پی ڈی تو کسی طور پر بندش کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ایک ماہ ہوگیا ہے کہ میں اپنے ڈاکٹر کو بل مشافہ نہیں دکھا سکی ہوں جبکہ میں اپنے پچھلے تجربے کی بنا پر بہت زیادہ ڈری ہوئی ہوں کہ خدانخواستہ کہیں کچھ ہو ناجائے'۔
ڈاکٹر عدالت اور مریضوں کی رائے سے اختلاف کیوں رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر شیر شاہ سید پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں اور سوسائٹی آف آبسٹریشین اینڈ گائنا کولوجسٹس آف پاکستان کے سابق صدر بھی ہیں۔ ان کا عدالت کے فیصلے پر کہنا تھا کہ ’میں چیف جسٹس صاحب کے فیصلے کے بارے میں بصد احترام کہنا چاہوں گا کہ اس قسم کا فیصلہ طبّی اعتبار سے ٹھیک نہیں ہے اور اس سے لوگوں کی صحت کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ او پی ڈی میں بے شمار لوگ آتے ہیں۔ اب وہاں موجود ڈاکٹروں اور عملے نے تو دستانے اور ماسک چڑھائے ہوتے ہیں لیکن مریض اکثر و بیشتر احتیاطی تدابیر کا خیال نہیں رکھتے لہٰذا اگر وائرس کا شکار کوئی ایک بھی غیر ذمہ دار مریض آجائے تو وہ دیگر مریضوں میں وائرس منتقل کرسکتا ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘دراصل دنیا کے دیگر کئی منظم اور عمدہ نظامِ صحت کے حامل ملکوں میں اسی طرح حالات خراب ہوئے، جن میں سے برطانیہ، اٹلی اور فرانس کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وہاں ایک متاثرہ فرد نے 400 سے 500 افراد کو وائرس زدہ کیا ہے۔ ہمیں اتنے الیکٹو مریض نہیں دیکھنے چاہئیں۔ ہنگامی صورتحال کے علاوہ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کو کسی اور کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ چین نے کون کون سے اقدامات کیے؟ کوریا نے کیا کیا؟‘
ڈاکٹر شیر شاہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’یقیناً غربا اس وقت کٹھن حالات سے دوچار ہیں اور حکومت ان تک ہر صورت راشن فراہم کرے تاکہ لاک ڈاؤن میں ان کی دشواریوں میں کمی لائی جاسکے، ساتھ ہی اس بات پر بھی کوئی شک نہیں کہ سخت لاک ڈاؤن ہی اس وائرس سے ہمیں بچا سکتا ہے۔ یہ چند مہینوں کی بات ہے۔ سادہ کھانا کھائیں، اگر یہ وائرس گنجان آبادیوں یا کم پڑھی لکھی آبادیوں کی طرف چل نکلا تو صورتحال بد سے بدترین ہوجائے گی‘۔
ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی ڈاؤ یونیورسٹی ہیلتھ سائنس میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پرفیسر خدمات انجام دے رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسسوسی ایشن (پیما) کووڈ ٹاسک فورس کے رکن بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جیسے ممالک میں صحت کا شعبہ زیادہ منظم نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل زیادہ ہیں‘۔ اپنے ہسپتال سے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ ’عام حالات میں روزانہ 5 ہزار سے 8 ہزار مریض او پی ڈی میں آتے تھے۔ یہاں مریضوں کو بٹھانے کے لیے کشادہ جگہ موجود نہیں اور بعض اوقات مریضوں کا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہے۔ ہمارے ہسپتال میں چند او پی ڈیز جیسے گائنی، کینسر اور بچوں کی او پی ڈی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن تمام او پی ڈیز کا چلنا ممکن نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن اور راستے کی بندش کے باعث مریضوں کا رش تو کم ہوا ہے، پھر کورونا سے بچنے کے لیے گھر میں بیٹھنے کے لیے بھی کہا جارہا ہے اور یہ حال پوری دنیا میں ہے۔ ہمیں عالمی ادارہ صحت نے یہی ہدایات دی ہیں‘۔
ڈاکٹر عاطف مزید کہتے ہیں کہ ’امریکا کا حال ہم دیکھ چکے ہیں۔ 'کووڈ کورونا' ابھی صرف 4 ماہ کا ہوا ہے اور اس سے متعلق ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا ابھی تک ایک حل سماجی دُوری ہی پیش کیا گیا ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس ساری صورتحال میں ٹیلی میڈیسن کی ضرورت محسوس کی گئی۔ پیما نے بھی اپنی ہیلپ لائن شروع کی ہے۔ اس پر ڈاکٹروں سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت متعدد ڈاکٹر بھی اپنے ریگولر مریضوں سے ٹیلی فون کے ذریعے رابطے میں ہیں۔ اگر ڈاکٹر محسوس کرتے ہیں کہ مریض کو فوری طبّی امداد کی ضرورت ہے تو ہی انہیں ہسپتال بلایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹروں نے مریضوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے بلکہ ڈاکٹر ہر سطح پر اپنے مریضوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘۔
این آئی سی وی ڈی کے ایک ڈاکٹر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ان کے ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی کھلی رکھنا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ مریض ایک ہی داخلی دروازے سے کھلے ہال میں آتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے جو کم سے کم فاصلہ 6 فٹ درکار ہے وہ یہاں کے ہال میں ممکن نہیں۔ یہاں ہر علاقے اور ہر طبقے کے مریض آتے ہیں۔ اب جب 150سے 200 مریض اور ان کے ہمراہ 2 سے 3 عزیز یا دوست آئیں گے تو کوئی مجھے بتائے کہ اس پُرہجوم اور دھکم پیل والے ماحول میں کوئی کیسے کورونا وائرس سے بچ سکتا ہے؟‘
لیکن انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ ’ہسپتال ایمرجنسی 24 گھنٹے کھلی ہے اور جو افراد زیادہ بیمار ہیں ان کو پہلے دیکھا جارہا ہے۔ دوائیں مل رہی ہیں یا نہیں، یہ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ہم ڈاکٹر خود دباؤ کا شکار ہیں، شعبہ صحت کو اس وقت مشکل گھڑی کا سامنا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دمہ، دل اور سانس کی تکالیف سے دوچار مریض اس وائرس کا آسان ہدف ہیں۔ اگرچہ ہمارا ہسپتال براہِ راست کورونا وائرس کے مریضوں کو نہیں دیکھ رہا لیکن وائرس کے حامل مریض دل کی تکالیف کے ساتھ یہاں آسکتے ہیں‘۔
مریضوں سے ڈاکٹر اور عملے میں وائرس پھیلنے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’ایسا صرف ایک کیس سامنے آیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کسی مریض سے پھیلا یا پھر کسی اور ذریعے سے کیونکہ جو شخص کورونا وائرس کا شکار ہوا تھا اس کے اپنے عزیز بھی باہر سے سفر کرکے آئے تھے۔ ہم ڈاکٹر اس لیے بھی فکر مند ہیں کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مطلوبہ ماسک، ضروری حفاظتی سامان اور ادویات ہمارے ہسپتال میں کم ہیں۔ لیکن اس ساری صورتحال میں بھی ہم کورونا اور دیگر امراض کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت لوگوں کی جان بچانے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں‘۔
ان ڈاکٹر کا مزید کہنا تھا کہ ’پچھلے ہفتے پُراسرار اموات سے متعلق جو خبریں آرہی تھیں، وہ براہِ راست ہمارے نظام کی خرابی ظاہر کرتی ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ لوگ اپنے کورونا وائرس کے مریضوں کو صرف اس لیے ہسپتالوں تک نہیں پہنچا رہے کہ کہیں ان کا مریض آخر وقت میں ان سے بچھڑ نہ جائے اور وہ حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ مریض کی گھر پر ہی دیکھ بھال ہو۔ لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ طریقہ نہ تو مریض کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی خود ان کے لیے۔ ہمیں اپنے انتظامی امور اور نظام کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا ہوگی اور بروقت مطلوبہ اقدامات کرکے انہیں ٹھیک کرنا ہوگا۔
موجودہ بحران دراصل نظام کو بنیادی سطح سے ٹھیک کرنے کا تقاضا کر رہا ہے۔ زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہر ایک کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہم ایک ہنگامی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔