پاکستان

شہباز شریف سے تفتیش کیمرے کے سامنے کی جائے، شاہد خاقان عباسی

نیب کو چینی، آٹے کا اسکینڈل نظر نہیں آتا، کورونا وائرس کے معاملات بھی نیب کو نظر نہیں آتے، سابق وزیراعظم

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے شہباز شریف کی طلبی پر کہا ہے کہ ان سے ہونے والی تفتیش کیمرے کے سامنے کی جائے اور پاکستان کے عوام کو دکھایا جائے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو نیب نے طلب کیا تھا حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ میں تمام دستاویزات دے چکا ہوں اور مجھے صحت کے مسائل کا سامنا ہیں اس لیے پیش نہ ہونا بہتر ہے لیکن نیب نے دوبارہ نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ 22 تاریخ کو پیش ہوں۔

شاہد خاقان عباسی نے شہباز شریف کی نیب میں طلبی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'شہباز شریف کو نیب نے 5 اکتوبر 2018 کو صاف پانی کے کیس میں گرفتار کیا وہاں سے کچھ نہ ملا تو آشیانہ کیس بنانے کی کوشش کی اس میں کچھ نہ ملا تو گندا نالے کی تعمیر کا کیس بنانے کی کوشش کی جب اس میں بھی کچھ نہیں ملا تو 23 اکتوبر 2018 کو آمدن سے زائد اثاثے کا کیس بنانے کی کوشش کی یا بنایا'۔

مزید پڑھیں:نیب کا شہباز شریف کی طلبی کیلئے ایک اور نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ 14 فروری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کو ضمانت دی، مجموعی 132 روز حراست میں رہے اور 70 دن نیب کی حراست میں رہے جہاں انہوں نے تفتیش کی یا نہیں مگر مقصد تو ہتک عزت ہوتی ہے جو انہوں نے کی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شہباز شریف کے خلاف اختیارات سے تجاوز اور کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں کہا گیا کہ نیب کا کیس بدنیتی پر مبنی ہے جس کے خلاف نیب سپریم کورٹ میں گئی لیکن وہاں سے دستبردار ہوگئی یعنی انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مزید کوئی ضرورت نہیں ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ مجھ پر کرپشن ثابت کریں میں ہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑ دوں گا لیکن دو سال ہونے کو ہیں طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'ایک صاحب شہزاد اکبر ہیں، کون ہیں کس ملک سے آئے ہیں پس منظر کیا ہے اور معلوم کرلیں کہ ان کا تعلق نیب سے ہے یا نہیں، انہوں نے ٹی وی پر آکر بارہا کہا کہ پنجاب حکومت نے 56 کمپنیاں بنائیں اور بڑی کرپشن ہوئی ہے'۔

شاہد خاقان عباسی نے شہزاد اکبر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ بات جب ختم ہوگئی تو پھر برطانوی صحافی کو پیسے دے کر لے آئے جس نے ڈیلی میل میں لکھا کہ برطانوی حکومت کے ادارے کے کام میں کرپشن ہوئی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'برطانوی حکومت نے اتوار کے روز بیان جاری کیا کہ اس حوالے سے کوئی کرپشن نہیں ہوئی اور یہ وزیراعظم کا معاون خصوصی ہے جو نیب کے حوالے سے بیان دیتا ہے، الزامات لگاتا ہے اور پاکستان کی ہتک کرواتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:شہباز شریف نے 'مدافعت' کمزور ہونے کی وجہ سے نیب میں پیشی سے معذرت کرلی

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے لندن میں ان کے خلاف کیس کیا اس کے بعد شہباز شریف کی بیٹی کے گھر میں چھاپے مارے گئے اور میڈیا کو بیان دیا گیا کہ ہمیں کرپشن کے حوالے سے بہت سا مواد ملا لیکن کئی مہینے گزرنے کے باوجود کیا ہوا خداجانے کچھ معلوم نہیں۔

حمزہ شہباز شریف کی گرفتاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے صاحبزادے اور لاہور سے میرے حلقے سے رکن صوبائی اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر ہیں انہیں حراست میں 90 روز ہوگئے لیکن کوئی پتہ نہیں ہے کہ مقدمہ کیا اور کیوں ہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکمران جھوٹے کیسز بنانے اور حکومتی مشینری استعمال کرکے اپوزیشن کو دبانے میں مصروف ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب نے 2018 سے اب تک جو معلومات مانگی شہباز شریف نے مہیا کی اسی طرح کی معلومات عمران خان سے بھی مانگ لیں، ان کے کیا اثاثے، سرمایہ اور اخراجات ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ریکارڈ کیا کہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہزاد اکبر اور چیئرمین نیب بھی اپنی دستاویزات دے دیں عوام کے سامنے رکھیں تاکہ ایک دفعہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نہ تو اس نیب اور نہ ہی جیل سے گھبراتے لیکن میں سوال یہ کررہا ہوں کہ جب ملک میں اتنا بڑا چیلنج ہے اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کو صرف بے عزتی کرنے کے لیے طلب کررہے ہیں اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں نیب کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق کے کیس میں سپریم کورٹ میں موجود تھا وہاں عدالت نے کہا کہ نیب کے معاملات یا نالائقی پر مبنی ہیں یا بدنیتی پر مبنی ہیں اور جو شہباز شریف کے ساتھ ہورہا ہے یہ نالائقی اور بدنیتی ہے، یہ حکومت کی سوچ کی عکاسی ہے جو آج پاکستان میں حکمران ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'ہم چاہتے ہیں کہ 22 تاریخ کو جو تفتیش کرنی ہے وہ کیمرا لگا کر عوام کو دکھائیں کہ آپ اپوزیشن لیڈر سے کیا تفتیش کررہے ہیں، اگر اس حکومت سے اپوزیشن لیڈر نیب کے ہتھکنڈوں سے محفوظ نہیں ہے تو پھر کون محفوظ ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہاں کون سرمایہ کار آپ کی مدد کو آئے گا اور صنعتیں لگیں گی اور ملک میں کون سیاست کرے گا، بات کسی ایک شخص کی نہیں ہے بلکہ بات اس معاملے کی ہے جس کو ہم نے استعمال کرکے ملک کی سیاست اور معیشت کو بھی تباہ کردیا، کورونا کے مسئلے کو ایک طرف رکھ کر ہم ان کاموں میں ملوث ہیں'۔

مزید پڑھیں:شہباز شریف نے ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کا منصوبہ پیش کردیا

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'یہ معمولی باتیں نہیں ہیں بلکہ آج ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، اس طرح کے حکمران اور نیب جیسے اداروں کے ہوتے ہوئے ملک چل نہیں سکتا، یہ بڑی واضح بات ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'نیب کو چینی اور آٹے کا اسکینڈل نظر نہیں آتا، نیب کو کورونا وائرس کے معاملات پر کرپشن نظر نہیں آتی حالانکہ وزیر خود الزامات لگارہے ہیں کہ گٹھیا مال خریدا جارہا ہے لیکن اس میں کوئی بات نہیں ہے'۔

نیب کے معاملات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'کے پی ٹی کا اسکینڈل نیب کو نظر نہیں آتا، وزارت خزانہ کے اسکینڈل اور اسٹیٹ بینک میں جو ہورہا ہے وہ نیب کو نظر نہیں آتا'۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کے فیصلے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ اسٹیٹ بینک ریٹس بڑھا کر ملک کی معیشت کو تباہ کررہا ہے اور آج شرح سود واپس 9 فیصد پر آیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ نے شرح سود کیسے کم کیا تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کا پہلا فیصلہ غلط تھا یا آج کا فیصلہ غلط ہے، شرح سود کیوں 6 فیصد پر واپس نہیں لارہے ہیں تاکہ ملک کی معیشت چل سکے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سب مل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کریں لیکن یہ عمران خان اور اس کی سوچ ہے جو ملک میں تفریق چاہتی ہے اور اپنی سیاست اور ناکامیوں کو بچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے معاملے میں ہم چاہتے ہیں کہ ریکارڈ پر آئیں اور کیمرے پر تفتیش کی جائے اور جو سوال شہباز شریف سے کرتے ہیں وہ چیئرمین نیب، عمران خان اور ان کے دیگر معاونین بھی جواب دے دیں کہ ان کے اثاثے کیا ہیں اور سرمایہ اور اخراجات کیا ہیں اور ان کے والد کے پاس کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:نیب نے شہباز شریف سے غیر ملکی اثاثوں، کاروبار کی تفصیلات طلب کرلیں

خیال رہے کہ شہباز شریف کو نیب نے 22 مارچ کو تفتیش کے لیے طلب کیا ہے اس سے قبل وہ نیب میں پیش نہیں ہوئے تھے اور طبی حوالے سے خدشات ظاہر کیے تھے۔

نیب لاہور کی جانب سے شہباز شریف کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام حفاظتی اقدامت کے ساتھ انہیں 22 اپریل دن 12 بجے نیب ٹیم کے روبرو پیش ہونے کا نوٹس ارسال کیا گیا تھا۔

ارسال کردہ نوٹس میں نیب نے شہباز شریف کو یقین دہانی کروائی گئی کہ کورونا وائرس کے پیش نظر مکمل حفاظتی اقدامات اختیار کئے جائیں گے۔

اس حوالے سے نیب ذرائع نے بتایا تھا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی انکوائری آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور شہباز شریف سے سوالات کے جواب انتہائی ضروری ہیں۔

انہیں کہا گیا تھا کہ نیب لاہور میں پیشی کے موقع پر سماجی فاصلے کو مد نظر رکھا جائے گا اور نیب ٹیم محتاط رویہ اختیار رکھے گی۔

کورونا وائرس ازخود نوٹس: کسی بھی عمل میں شفافیت نظر نہیں آرہی ہے، چیف جسٹس

شہزادہ ہیری اور میگھن کا نشریاتی اداروں کو معلومات نہ دینے کا اعلان

کراچی: ایس او پی کی خلاف ورزی پر 3 صنعتی یونٹس بند