’عہدِ کورونا‘ میں ہمارے ادیبوں کے گزرتے شب و روز
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے ہر ایک کو اپنے گھر تک محدود رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ شاہراہیں ویران اور گلیاں کوچے سنسان ہیں، بازاروں میں سناٹا اور راستوں پر خاموشی کا راج ہے۔
اس جبری فرصت اور تنہائی (لاک ڈاؤن) کو جھیلنے کے لیے، اپنے اپنے گھروں میں محصور افراد نے اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق مصروفیات ڈھونڈلی ہیں۔ کسی نے خود کو سوشل میڈیا کے جنگل میں گم کرلیا، تو کوئی فلمیں اور ڈرامے دیکھ رہا ہے، کسی نے کتابوں کے مطالعے میں اپنا دل لگا لیا تو کوئی اپنی تخلیقی دنیا میں ہر پل مصروف ہے۔
اچانک مسلط ہوجانے والی اس جبری فرصت میں پاکستان کے ادیب اور شعرا کیا کر رہے ہیں، اور کس طرح خود کو مشغول رکھے ہوئے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے ان سے رابطہ کیا۔
اس دوران ان سے ہونے والی خصوصی گفتگو اور تاثرات کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہوسکے کہ بڑے لوگ مشکل وقت میں بھی غیر معمولی برتاؤ اختیار کرتے ہیں، جس طرح ان تخلیق کاروں نے کیا ہے۔
اردو ادب میں ادوار یا عہد کی بنیاد پر بات کی جاتی ہے کہ وہ فلاں شاعر کا دور تھا، یا وہ عہد فلاں ادیب کا تھا، وغیرہ وغیرہ لیکن ابھی ہم اردو ادب کے جس عہد سے گزر رہے ہیں یہ کورونا کا عہد ہے، جس میں کئی کہانیاں، مکالمے اور شاعری تخلیق ہوگی اور اس کو عہدِ کورونا کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ اس سے پہلے یہ تخلیقات مکمل ہوں اور آپ تک پہنچیں، ہم نے اس سے پہلے ہی چند منتخب ادیبوں تک پہنچ کر پیشگی احوال دریافت کیا ہے، جو یہاں پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان کے عصری ادبی منظرنامے پر موجود مستنصر حسین تارڑ ایک نامور تخلیق کار ہیں اور خاص طور پر اردو ناول نگاری میں گزشتہ کئی دہائیوں سے شہرت کی نئی بلندیوں پر فائز ہیں۔
پی ٹی وی سے نشر ہونے والے پاکستان کے اوّلین مارننگ شو کے میزبان ہونے کے علاوہ وہ سفرنامے لکھتے، اداکاری کرتے اور میزبانی کے فرائض انجام دیتے آرہے ہیں۔ وہ چونکہ ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک ہیں اس لیے آج بھی پوری توانائی سے خود کو مصروف رکھتے ہیں۔ صبح میں روزانہ پیدل چلنا، خوش خوراکی، مستقل طور پر کالم لکھنا، مطالعہ کرنا، ہم ذوق افراد سے ملنا اور سفر کرنا ان کے معمولات میں شامل ہے۔
راقم نے انہیں تجویز بھی پیش کی کہ اگر ممکن ہو تو اپنی نئی کتابوں کی تقریبات کا سلسلہ لاہور سے کراچی تک دراز کیجیے، یہاں آپ کے چاہنے والے چاہتے ہیں کہ آپ ان کے درمیان بھی رہیں، خاص طور پر جب آپ کی کوئی نئی کتاب چھپ کر آئے کیونکہ اس پر بات کرنے کی خواہش قارئین کے دل میں جاگتی ہے۔ اسی گفتگو میں تارڑ صاحب کو اپنی کتاب 'کے ٹو' کہانی کی تقریبِ رونمائی یاد آگئی اور اس کا تذکرہ کرنے لگے۔