تو 2 ہفتے بعد حالت بگڑنے کیوں لگتی ہے؟ جب وائرس پھیپھڑوں میں سفر کررہا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام اسے روکنے کے لیے پوری طاقت سے کوشش کررہا ہوتا ہے اور ایک فوج دشمن کا تعاقب کررہی ہوتی ہے۔
پروفیسر کرسٹین ہوکینیس کے مطابق 'جارحانہ فطرت رکھنے والے وائرسز جیسے یہ نیا کورونا وائرس مدافعتی گنجائش کو آزماتے ہیں'۔
اکثر اوقات مدافعتی نظام متاثرہ فرد کے جسم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنے دیتا اور عموماً ایسا اوسطاً ایک ہفتے میں ہوجاتا ہے۔
مگر چونکہ یہ وائرس انسانی جسم کے لیے بالکل نیا ہے تو ہمیشہ یہ لڑائی اتنی سادہ نہیں ہوتی کیونکہ عمر کے ساتھ مدافعتی نظام کمزور ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بزرگ افراد میں اس سے سنگین بیماری کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ جو پہلے سے کسی مرض جیسے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا دیگر کا شکار ہوتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے جو وائرس کے خلاف ردعمل کے باوجود جسم کو زیادہ کمزور بنادیتا ہے۔
کئی بار تو نوجوان اور صحتمند افراد بھی اس مرحلے میں بہت زیادہ بیمار ہوجاتے ہیں۔
پروفیسر کرسٹین ہوکینیس کا کہنا تھا ' دو ہفتے میں مدافعتی نظام کو اس وائرس پر قابو پالینا چاہیے، ایسے افراد جو پہلے سے کسی مرض کا شکار ہوں ، زیادہ عمر کے ہوں یا مدافعتی نظام درست طریقے سے کام نہ کررہوں، وہ اس توازن کو برقرار نہیں رکھ پاتے، ان کو ابتدا میں کچھ ریلیف محسوس ہوتا ہے، مگر پھر حالات قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں'۔
پروفیسر ولیم نے بتایا کہ جب مدافعتی ردعمل دوبارہ خود کو منظم کرتا ہے تو پھر جسم کو نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ حد سے زیادہ ردعمل صرف وائرس کو ہدف نہیں بناتا بلکہ جسمانی ٹشوز کو بھی نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
ایسا ہی کچھ پھیپھڑوں سے باہر جسم کے دیگر حصوں میں بھی ہوتا ہے اور ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وائرس دیگر اعضا جیسے دل، جگر اور گردوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پروفیسر کرسٹین کے مطابق یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اچھے مدافعتی ردعمل اور نقصان دہ ردعمل کا فرق ظاہر ہونے لگتا ہے، اگر وائرس کو مدافعتی ردعمل کنٹرول کرلیتا ہے تو مریض صحتیاب ہوجاتا ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا حالت نازک ہوجاتی ہے۔
ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا کہ دوسرے ہفتے اور علامات کی دوسری لہر اکثر مریضوں کو آئی سی یو تک پہنچا دیتی ہے۔
اگر مدافعتی خلیات نقصان پہنچاتے رہے اور زیادہ ورم پیدا کرنے والے کیمیکلز کی مقدار بڑھائیں تو جسمانی سیال معمول کے مطابق خارج نہیں ہوتا اور پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے، جس سے حالت خراب ہوتی ہے جبکہ خون میں آکسیجن کی سطح گر جاتا ہے، جس پر وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔
موت کا خطرہ کس وقت سب سے زیادہ ہوتا ہے؟ گزشتہ مہینے چین میں طبی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نئے نوول کورونا وائرس سے کسی مریض کی موت اوسطاً 18.5 دن میں واقع ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں ووہان کے جن ین تان ہسپتال اور ووہان پولمونری ہسپتال میں 29 دسمبر 2019 سے 31 جنوری 2020 تک داخل ہونے والے 191 مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سنگین علامات کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔
دونوں ہسپتالوں میں یکم فروری تک ایسے مریضوں کو داخل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات کی شدت بہت زیادہ تھی اور اس عرصے کے دوران 137 ڈسچارج جبکہ 54 ہلاک ہوگئے تھے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈسچارج ہونے کے وقت کا اوسط دورانیہ 22 دن تھا جبکہ موت کا اوسط دورانیہ 18.5 دن تھا۔
ریکور کرنے والے افراد میں بخار کا اوسط دورانیہ 12 دن کے قریب تھا جو کہ ہلاک ہونے والوں میں بھی اتنا ہی تھا، مگر صحت مند ہونے والوں میں 50 فیصد کے قریب افراد کو ہی کھانسی کی شکایت ہوتی ہے جبکہ سانس لینے میں مشکل کی شکایت 13 دن کے بعد کم ہونے لگتی ہے۔
جہاں تک اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کا تعلق ہے، ان میں عفونت کا آغاز 9ویں دن شروع ہوجاتا ہے جبکہ گردے یا دل کی شدید انجری 15ویں دن تک ہوسکتی ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ جو مریض بچ جاتے ہیں، وہ وائرس کو 37 دن تک کسی صحت مند افراد میں منتقل کر سکتے ہیں، یہ دورانیہ سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ طویل ہے۔
چین کے چائنا۔ جاپان فرینڈشپ ہسپتال اور کیپیٹل میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر بن کاﺅ نے بتایا کہ وائرس کے جھڑنے کے دورانیے میں اضافے کو ہماری تحقیق کے دوران دیکھا گیا جو مصدقہ کیسز میں الگ رکھنے کی احتیاطی تدابیر اور اینٹی وائرل علاج کے حوالے سے رہنمائی میں اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا 'مریضوں کو ہسپتال سے گھر جانے کی اجازت دینے سے قبل کووڈ 19 کے نیگیٹو ٹیسٹ لازمی قرار دیئے جانے چاہیے'۔