27 دسمبر کو ہوبے پرویژنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا۔
2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی۔
رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاﺅ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔
سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج اس وقت سامنے آئے جب چند دن قبل ہی یہ خبر سامنے آئی تھی کہ امریکی حکومت کو شک ہے کہ کورونا وائرس کو ممکنہ طور پر چین کے شہر ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔
فاکس نیوز، سی این این اور یاہو نیوز نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ امریکی حکومت نے شکوک بڑھنے کے بعد خفیہ اداروں کو معاملے کی تفتیش کا حکم دے دیا۔
رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ دن قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ امریکی حکومت اس بات پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ کہیں کورونا کسی لیبارٹری میں تو تیار نہیں ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے محض ایک روز بعد سی این این نے اپنی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکی حکومت نے خفیہ اداروں کے ماہرین کی مدد سے اس معاملے کی تفتیش شروع کردی ہے کہ کہیں کورونا وائرس چین کی لیبارٹری میں تو تیار نہیں ہوا۔
امریکی حکومت کی جانب سے تفتیش شروع کیے جانے کے بعد چینی حکومت نے بھی ایک بار پھر بیان دیا تھا کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) بھی کہہ چکا ہے کہ کورونا وائرس لیبارٹری میں نہیں بنا۔