رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اگرچہ امریکی حکومت کے زیادہ تر عہدیداروں کو یقین ہے کہ کورونا وائرس کو لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا تاہم پھر بھی اب حکومت اور خفیہ ادارے مل کر اس بات کی کھوج لگائیں گے کہ کیا واقعی کورونا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے۔
مگر امریکی اور یورپی سائنسدانوں نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار نہیں ہوا یا انسانوں کا بنایا ہوا نہیں۔
امریکی جریدے نیوز ویک سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی آف مشی گن میڈیکل اسکول کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور وائرسز کی ارتقا کے ماہر ایڈم لورنگ نے کہا 'یہ خیال ایک سازشی تھیوری کا نتیجہ ہے اور دستیاب ڈیٹا اس کی حمایت نہیں کرتا'۔
مارچ میں جریدے نیچر میڈیسین میں وائرس کی بنیاد کے حوالے سے شائع ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا 'مریضوں اور متعدد جانوروں میں کورونا وائرس کے جینوم سیکونز کا تجزیہ کرنے کے بعد بتایا گیا تھا کہ یہ وائرس کسی میزبان جانور میں گیا اور انسانوں میں منتقل ہونے کے بعد مزید تبدیلیوں کے عمل سے گزرا'۔
انہوں نے کہا 'سارس کوو 2 وائرس (نئے نوول کورونا وائرس کا سائنسی نام) پہلے دریافت ہونے والے ان کورونا وائرسز سے جینیاتی لحاظ سے کافی مختلف ہے جن پر لیبارٹری میں کام ہوا ہے، درحقیقت یہ جینیاتی تبدیلیاں کسی لیبارٹری سے فرار کا نتیجہ نہیں ہوسکتیں'۔
فرانس کی سوربون یونیورسٹی میوزم آف نیچرل ہسٹری کے پروفیسر الیگزینڈر ہسانین نے کہا 'اگرچہ یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ کسی لیبارٹری میں کوئی حادثہ نہیں ہوا، مگر سارس کوو 2 ماضی کے وائرسز سے بہت زیادہ قریب سے جڑا ہوا نہیں، درحقیقت ماضی کی تحقیقی رپورٹس میں اس کا کوئی سیکونس (یہاں تک کہ جزوی) بھی موجود نہیں اور کووڈ 19 کی وبا گزشتہ سال نومبر/دسمبر میں پھیلنا شوع ہوئی جبکہ سارس کی وجہ 2002 اور 1003 میں سامنے آئی تھی'۔
انہوں نے زور دیا 'سوشل میڈیا سے پھیلنے والےل اس تنازع کا حل یہی ہے کہ نئے ڈیٹا کو فراہم کیا جائے یعنی چمگادڑوں، پینگولینز اور دیگر ممکنہ جانوروں کے وائرل جینول سیکونسز سامنے لائے جائیں، تاکہ اس وبا کی بنیاد کو سمجھنے میں مدد مل سکے'۔
ان کا کہنا تھا 'مجھے کوئی شک نہیں کہ چینی محققین اس پر بہت زیادہ متحرک انداز سے کام کررہے ہیں'۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ نیچر میڈیسین میں امریکا کے اسکریپس ریسرچ انسٹیٹوٹ، آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی، ایڈنبرگ یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور تولین یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق میں کہا گیا تھا کہ کورونا وائرسز کی متعدد اقسام کے دستیاب جینوم سیکونس کا موازنہ کرنے کے بعد ہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ یا کورونا وائرس قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔
کورونا وائرسز جراثیموں کے ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو مختلف نوعیت کے امراض کا باعث بنتے ہیں اور اس حوالے سے سب سے پہلا کورونا وائرس 2003 میں نمودار ہونے والا سارز تھا جس سے چین میں وبا کا آغاز ہوا تھا۔
اس نسل کے وائرس سے دوسری بڑی وبا 2012 میں مرس وائرس سے سعودی عرب میں پھیلنا شروع ہوئی تھی۔
گزشتہ سال 31 دسمبر کو چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو نوول کورونا وائرس کی وبا سے آگاہ کیا تھا جسے 20 فروری 2020 کو سارز کوو 2 کا نام دیا گیا جبکہ اس سے ہونے والی بیماری کو کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔
اب تک اس وائرس سے دنیا بھر میں 2 لاکھ سے زائد افراد متاثر جبکہ 8 ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
وبا کے پھیلنے کے ساتھ ہی چینی سائنسدانوں نے اس وائرس کے جینوم کا سیکونس تیار کرلیا تھا اور ڈیٹا کو دنیا بھر سے شیئر کیا۔
تحقیق میں سائنسدانوں نے متعدد تحقیقی اداروں کے اشتراک کے ساتھ اس سیکونس ڈیٹا کی کھوج سے اس کی بنیاد اور ارتقا کو جاننے کی کوشش کی، جس کے لیے وائرس کے متعدد نمایاں فیچرز پر توجہ دی گئی۔
سائنسدانوں نے وائرس کے اسپائک پروٹین سمیت مختلف حصوں کا تجزیہ کیا اور دریافت کیا کہ اسپائیک پروٹینز میں موجود آر بی ڈی پورشن انسانی خلیات کے باہر موجود ریسیپٹر ایس 2 کو موثر طریقے سے ہدف بناتا ہے۔
اسپائیک پروٹین اتنے موثر طریقے سے انسانی خلیات کو جکرتے ہیں کہ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ قدرتی نتیجہ تو ہوسکتا ہے انسانوں کے ہاتھوں جینیاتی تدوین کا نہیں۔
اس وائرس کے قدرتی ہونے کا ثبوت اس کا مجموعی مالیکولر اسٹرکچر ہے، اگر کوئی ایک کورونا وائرس کو جینیاتی طور پر بدلے، تو وہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو تعمیر کرے گا جو وائرس کی جانب سے امراض پھیلانے کا ذریع ہے، مگر اس نئے وائررس میں ریڑھ کی ہڈی کی ساخت چمگادڑوں اور پینگولین میں پائے جانے والے وائرسز سے ملتی جلتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ وائرس کے یہ 2 فیچر یعنی اسائیک پروٹین کا آر بی ڈی پورشن اور اس کی ریڑھ کی ہڈی لیبارٹری میں کی جانے والی تدوین کے خیال کو مسترد کرتے ہیں۔