نقطہ نظر

2 - کاٹھ کی الف لیلیٰ

خدا جانے کیوں زندگی سے موت تک آدمی اپنے تعارف کے لئے تختیوں کا ہی محتاج رہتا ہے۔

ریل کی سیٹی

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔

اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔


یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لیئے کلک کریں

آج سے تقریبا نوے سال پہلے چار لاکھ کی لاگت سے تیار ہونے والے اس حیرت کدے کو کچھ لوگ تو عمر حیات کی نسبت سے یاد رکھتے ہیں اور کچھ اسے عمر حیات کے بیٹے گلزار سے موسوم کرتے ہیں۔

ریختی محلے میں قلعے کی دیوار کے ساتھ ساتھ اندر مڑیں تو سامنے کاٹھ کی یہ الف لیلیٰ ہے، جس کا ہر پہلو ایک کہانی ہے اور ہر کہانی اگلی کہانی سے جڑی ہے۔ یوں تو چودہ مرلے کے اس محل میں چھت سے تہہ خانوں تک پانچ منزلیں ہیں مگر پہلی نظر ہمیشہ دروازے سے ذرا اوپر بنے ایک جھروکے پہ جا رکتی ہے۔

پانچ کھڑکیوں اور دو بازوئی دریچوں پہ مشتمل اس جھروکے کو اگر لکڑی کی شاعری کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ایک دوسرے سے جڑے کھڑکیوں کے یہ پٹ، باہر کو بند ہونے پر ایک بیل کی شکل بناتے ہیں اور اندر کھلنے پہ پھول کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ دیوار سے قدرے باہر نکلتے ہوئے جھروکے کو سہارا دینے کے لیے لکڑی کے ستون بنائے گئے ہیں ۔

مرکزی دروازے کے ساتھ ایک تختی پہ اس عمارت کو موجودہ شکل میں بحال کرنے والے ڈپٹی کمشنر، ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان جیسے دوسرے سنہری دل والے اصحاب کا ذکر ہے، جبکہ ایک دوسری تختی پہ ان تمام کاریگروں کے نام درج ہیں، جنھوں نے اس خواب کو تعبیر سے ہمکنار کیا۔ خدا جانے کیوں زندگی سے موت تک آدمی اپنے تعارف کے لئے تختیوں کا محتاج ہی رہتا ہے۔

اندر داخل ہوں تو میلا مگر دلآویز فرش کسی شوق کی یاد دلاتا ہے۔ دالان کے درمیان کمرۂ عدالت جیسا لکڑی کا ایک کٹہر ہ کھڑا ہے۔ کٹہرے میں موجود دو گواہ، وقت کے قرآن پر سورۂ عصر کی تفسیر ہیں۔ "بلاشبہ انسان خسارے میں ہے"۔

آٹھ سال میں مکمل ہونے والی یہ عمارت، خوبصورتی اور حسرت کا مر قع ہے۔ کہتے ہیں کہ محل مکمل ہونے سے پہلے ہی عمر حیات کا انتقال ہو گیا۔ در و دیوار پہ چھائی افسردگی کو دور کرنے کی غرض سے بیگم عمر حیات نے بیٹے کا بیاہ رچا دیا۔

شادی کے دعوت نامے چھپے تو شہر کے تمام رؤساء کے ساتھ ساتھ آس پاس کے دیہات میں بھی لوگوں کو کھلی دعوت دی گئی۔ شادی کی رات گلزار محل کو پہلی بار پوری طرح سجایا گیا تو الٰہی بخش پرجھہ دیر تک روشنیوں میں گھرے گھر کو دیکھتا رہا اور آنکھیں پونچھتا رہا۔

ولیمے کی صبح، اس گھر کے مکینوں پہ ایک اور قیامت کا سامان لائی۔ حادثے کی اصل وجہ کا علم تو اب تک نہیں ہو سکا مگر سنا ہے کہ دولہا غسل خانے میں دم گھٹنے سے انتقال کر گیا۔

اس بار عمر حیات کی بیوہ نے جنازہ اٹھانے سے انکار کر دیا اور گلزار کو محل کے دالان میں ہی سپرد خاک کیا۔ بیٹے کی موت کے ایک ہی سال بعد ماں بھی انتقال کر گئی اور وصیت کے مطابق اسی دالان میں دفن ہوئی۔ کٹہرے میں موجود یہ دو قبریں عمر حیات کی بیوہ اور اس کے بیٹے گلزار کی ہیں۔

صحن کے وسط میں پہلے ایک فوارہ نصب تھا۔ فوارے سے بلند ہوتی پانی کی دھار، چھت سے ٹنگے فانوس کی نوک سے متصادم تھی۔ زندگیوں کے چراغ بجھنے کی دیر تھی کہ جھاڑ فانوس بھی اتر گئے اور فواروں کی جگہ بھی قبروں نے لے لی۔

ماں اور بیٹے کی موت کے بعد خاندان والوں نے محل کو منحوس قرار دے کر یہاں رہنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں شہر کی ایک مخیر ہستی نے یہاں یتیم خانہ کھلوایا اور ملک التجار کے بچوں کی بجائے غریب الدیار کے بچے اس محل میں پلنے لگے۔ کچھ دن گھر پر ناجائز قبضہ بھی رہا اور کافی دن یہ خوبصورت یادگار، ارد گرد بے طرح بننے والے گھروں کے درمیان کھوئی بھی رہی۔

پھر شہر میں ایک نئے ڈپٹی کمشنر آئے جنہوں نے اس ورثے کی حفاظت کا باقاعدہ اہتمام کیا۔ پہلے عمارت کی پرانی طرز پہ مرمت کروائی گئی اور پھر اسے ایک لائبریری کی حیثیت دے دی گئی۔ اب ایک کمرے میں لائبریری کا دفتر ہے اور دوسرے میں وقت کو شیشے کی الماریوں میں بند کر کے رکھا گیا ہے۔

اس ایک کمرے کے عجائب گھر میں پرانے وقت کی ثقافت کی چند جھلکیاں، عمر حیات کے استعمال میں رہنے والی گاڑ ی کے پہئے اور کچھ گھریلو سامان پڑا ہے۔ یہیں، دولہے کے کرتے سے ذرا نیچے شادی کا دعوت نامہ بھی حنوط ہے اور مصر کی ممیوں کی طرح اچھے وقتوں کی کہانی سناتا ہے۔

سامنے کے کمرے میں خاص تو کچھ بھی نہیں، بس ایک چپ چاپ سی تصویر آتشدان پر دھری ہے۔ یہ تصویر گلزار محل کے مکمل ہونے پر لی گئی تھی۔ تصویر میں نظر آنے والی بالائی منزلیں کب کی گر چکی ہیں۔

ساتھ کے کمروں میں تہہ خانے ہیں، جہاں پہلے رہائش کا سامان رکھا جاتا تھا مگر اب صرف بوسیدہ سیڑھیاں اندھیرے میں اترتی دکھائی دیتی تھیں۔ محل کے قدیم نگران نے جب نیچے جانے والا دروازہ کھولا تو معلوم نہیں کب سے اندر قید ہوا نے سانس لیا ۔ باہر کا ساون، اندر کے ساون سے بہت مختلف تھا۔

اوپر جانے والی سیڑھیوں پہ دھمک کے احساس کو زائل کرنے کے لئے لکڑی کے تختے منڈھے ہیں۔ جیسی رنگ کی پچکاری نیچے کی دیواروں پہ چلی ہے، ویسے ہی نقش نگاری اوپر کی منزل میں بھی ہوئی ہے۔

اطالوی کلیساؤں کی طرز پر بنائی گئی پہلی منزل کی چھت پہ چہار اطراف ہندوستان کے تاریخی مناظر نظر آتے ہیں۔ لاہور کے شالامار باغ سے کانگڑہ کی پہاڑیوں تک اور آگرے کے تاج محل سے جے پور کے جنتر منتر تک، بنانے والے نے اس وقت کا پورا ہندوستان اس چھت پہ تصویر کر ڈالا ہے۔

اس سے اوپر کی منزلیں، بربادی کی کہانیاں ہیں۔ کہیں لکڑی کے اکھڑے ہوئے تختے ہیں اور کہیں گچ کی ادھڑی ہوئی چھتیں، جو نیچے کی منزلوں سے منسلک بھی ہیں اور مختلف بھی۔ فرش پہ کچھ بھولے بسرے نشان ہیں اور سیڑھیوں کے ساتھ توش دان کا کھنڈر، جو رات کو پانی کے برتن رکھنے کے کام آ تا تھا۔

یہاں سے شہر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے۔ چھتوں سے جڑی چھتیں اور ان کے نیچے ایک دوسرے سے بظاہر بے نیاز مگر اندروں بیلوں جیسی گلے ملتی اور جدا ہوتی زندگیاں، بیچ بیچ میں مسجدوں کے مینار اور ان پر چہار اطراف کو رخ کرتے لاؤڈ سپیکر، دور گھاٹی پہ موبائل ٹاور! اس آخری منزل پہ شام، ان تمام جزئیات کے ساتھ ہر آنے والے کا پرتپاک استقبال کرتی ہے۔