وزیراعظم کی ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویہ اختیار کرنے اور کورونا وائرس کے حوالے سے وفاقی حکومت کا مقدمہ درست طریقے سے پیش نہ کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے ’غیر سنجیدہ‘ رویے کا سختی سے نوٹس لیا اور حکومت کی جانب سے ملک میں وبا کی روک تھام کی انتھک کوششوں کو صحیح انداز میں پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معاونِ خصوصی کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں حکومت کی کامیابی کو ’مؤثر‘ اور ’عاجزی‘ کے ساتھ پیش کرنے کے پابند ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں، سپریم کورٹ
وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا نے سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالتی سوالات کے تسلی بخش جوابات نہیں دیے۔
چنانچہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے معاون خصوصی برائے صحت کی موجودگی میں سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کا احترام کرتی ہے اور کسی بھی سرکاری عہدیدار یا کابینہ کے رکن کی جانب سے کوئی ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور ’غیر سنجیدہ‘ رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 8 اپریل کو چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں حکومتی ٹیم نے کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات سے آگاہ کیا تھا۔
حکومتی ٹیم میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا، مشیر ثانیہ نشتر، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل، سیکریٹری صحت اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر سمیت دیگر لوگ شامل تھے۔
اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے حکومتی اقدامات پر بریفنگ میں کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات اور مستقبل کی منصوبہ بندی سے متعلق آگاہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: حکومت کو وبائی صورتحال میں کامیابی کیلئے محنت کرنی ہوگی، چیف جسٹس
بعدازاں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا بھی کہا تھا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ ظفر مرزا نے عدالتی ہدایت پر عمل نہیں کیا، عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعداد و شمار بتائے، بریفننگ میں حکومتی ٹیم سے 5 سوال پوچھے تھے، حکومت کی ٹیم کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکی۔
سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ڈاکٹر ظفر مرزا سے مطمئن نہیں ہیں آج ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیں گے۔
جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا تھا اس موقع پر ظفر مرزا کو ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا، آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو تبدیل نہ کریں ساتھ ہی انہوں نے استدعا کی تھی کہ عدالت ظفر مرزا کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا سے بچاؤ کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں، وفاقی حکومت کا عدالت میں جواب
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزرا کے اختیارات ہیں، کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث ہونے کے مبینہ الزامات ہیں۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا تھا کہ مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پہلے آپ نے حکومت کی اجازت سے آٹا بھیجا پھر حکومت کی اجازت سے چینی باہر بھیجی اب آپ طبی آلات حکومت کی اجازت سے درآمد کریں گے، آپ ہر کام حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں۔
جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ظفر مرزا نے جو بھی کیا حکومت کی اجازت سے کیا اور اس معاملے پر انکوائری جاری ہے۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے یہ بھی استفسار کیا تھا کہ ظفر مرزا کے خلاف کس معاملے کی تحقیقات جاری ہے؟ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایک شہری نے وفاقی تحیقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں درخواست دی تھی کہ انہوں نے طبی سامان بغیر ڈیوٹی چین بھجوایا۔