سلمان بٹ صاحب! اب آپ تو ایمانداری کی بات نہ کریں
وقت بدل چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ بھی۔ البتہ کوئی بھی شخص یہ سوال ضرور پوچھ سکتا ہے کہ کیا کبھی سورج مغرب سے طلوع اور مشرق میں ڈوب سکتا ہے؟ کیا زندگی اور موت کبھی ایک ہوسکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو صحیح کو غلط اور غلط کو کبھی بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا۔
دنیا بھر میں انسانی معاشرہ تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہنا انتہائی غیر ضروری ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، قدرت کی تشکیل کردہ بنیادی اقدار اپنی جگہ قائم و دائم ہیں۔
چند میڈیا رپورٹس کے مطابق 2010ء کے بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث قومی ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ نے حال ہی میں کہا کہ ایمانداری ایسی چیز نہیں جس پر پاکستان کرکٹ میں بات ہونی چاہیے۔
'میں ایسے کھلاڑیوں کو جانتا ہوں جنہیں ان کے تعلقات کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا اور متعدد ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں کسی خاطر خواہ کارکردگی کے بغیر ٹیم میں کم بیک کے لاتعداد مواقع فراہم کیے گئے، کیا یہ چیزیں کرپشن سے مختلف ہیں؟'
رپورٹس کے مطابق بائیں ہاتھ کے بلے باز اس بیان کا جواب دے رہے تھے جو محمد حفیظ کی جانب سے دیا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جن کھلاڑیوں نے پاکستان کا نام بدنام کیا اگر انہوں نے اپنی سزا پوری کرلی ہے تب بھی ایسے کھلاڑیوں کی پاکستان ٹیم میں واپسی کی کوئی ضرورت نہیں۔
2010ء کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے مرکزی کردار سلمان بٹ کو سب سے پہلے خود سے یہ سوال کرنا چاہیے: پاکستان کرکٹ کی ایمانداری تو دُور کی بات جس کی قیادت کرتے ہوئے میں نے خود اپنے ملک کی عزت اپنے ہاتھوں سے داؤ پر لگا دی تھی، لیکن کیا مجھے ایمانداری پر بھی بات کرنی چاہیے؟
ایمانداری کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور یہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔ پھر انسان منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے حاصل ہونے والے دنیاوی فوائد کو نظرانداز کرتے ہوئے خدا پر کامل یقین کے ذریعے اسے حاصل کرتا ہے اور یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے جو سب کے لیے یکساں رہتی ہے۔ بدقسمتی سے سلمان بٹ اس صف کا حصہ نہیں اور وہ خود بھی یہ بات جانتے ہیں۔
سلمان بٹ اس حقیقت سے کیسے نظریں چُرا سکتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ سے مراد سلیم ملک، سلمان بٹ، محمد آصف، محمد عامر، خالد لطیف یا ناصر جمشید نہیں جو سب سزا یافتہ فکسرز ہیں؟ ہر محب وطن پاکستانی اس بات پر فخر کرتا ہے کہ ایسے بہترین کرکٹرز کی طویل فہرست ہے جنہوں نے کئی سالوں تک مکمل ایمانداری اور شفافیت کے ساتھ پاکستان کرکٹ کی خدمت کی اور اب بھی کررہے ہیں۔
فضل محمود، عبدالحفیظ کاردار، حنیف محمد، خان محمد، وقار حسن، ویلس میتھیاز، امتیاز احمد سے مشتاق محمد، ماجد خان، ظہیر عباس، عمران خان، سرفراز نواز، وسیم راجہ تک، وسیم باری، مدثر نذر، جاوید میانداد، اقبال قاسم، محسن خان، عبدالقادر، رمیز راجہ سے سلیم یوسف، شعیب محمد، وقار یونس، عاقب جاوید، سعید انور، عامر سہیل تک، راشد لطیف، شاید آفریدی، شعیب اختر، محمد یوسف، عبدالرزاق، یونس خان، مصباح الحق، عمر گل، محمد حفیظ، سیعد اجمل تک سیکڑوں کھلاڑیوں نے فخر کے ساتھ گرین کیپ پہنی اور اپنی 100فیصد کارکردگی دکھا کر پاکستانی پرچم کو سربلند رکھا۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اوپر درج بالا کرکٹرز ہر غلطی سے پاک تھے، نہیں بلکہ انہوں نے بھی دیگر کھیلوں کی شخصیات کی طرح غلطیاں کی ہوں گی اور ان کے کیریئر میں بھی کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن ان کی کھیل میں دیانت داری پر کبھی بھی سوالیہ نشان نہیں لگا۔
خدا کا شکر ہے کہ ٹیسٹ ٹیم کے موجودہ کپتان اظہر علی اور ٹی20 کپتان بابر اعظم، اسد شفیق، سرفراز احمد، امام الحق، شان مسعود، حارث سہیل، محمد عباس، شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان، حسن علی، نسیم شاہ، یاسر شاہ، عابد علی، یاسر شاہ، محمد رضوان اور متعدد موجودہ پیشہ ورانہ کرکٹرز نے بھی خود کو کرپشن کی لعنت سے دُور رکھا ہوا ہے۔ یاد رکھیے کہ کرپشن ایسی بیماری ہے جو انتہائی خوش اور پُرسکون انسان کو بھی تباہ کردیتی ہے جس کی ایک بہترین مثال ہنسی کرونئے ہیں۔
داغدار کھلاڑیوں کو سزا پوری کرنے کے بعد پاکستان ٹیم کی دوبارہ واپسی کا موقع دیے جانے کے حامی چند کھلاڑیوں کی رائے پر سلمان بٹ نے کہا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر اس مسئلے پر کوئی کیسے بات کرسکتا ہے اور اس پر اپنا نقطہ نظر پیش کرسکتا ہے حالانکہ یہ بات معنی ہی نہیں رکھتی۔ حرفِ آخر یہ کہ صرف انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اور پی سی بی ہی اس معاملے پر بات کرسکتے ہیں کیونکہ وہ قوانین بناتے ہیں۔
سلمان بٹ صاحب اس وضاحت کا شکریہ۔ البتہ ہم اوپننگ بلے باز کو یاد دہانی کراتے چلیں کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہی تھے جنہوں نے 10سال پہلے لارڈز کے میدان میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے آئی سی سی اور پی سی بی کے اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی کی تھی اور ہر کسی نے دیکھا تھا کہ کس طرح ایمانداری پر سمجھوتہ کرکے حب الوطنی کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
چلیے اب سلمان بٹ کے اس بیان پر بھی بات کرلی جائے جس میں انہوں نے بعض کھلاڑیوں کی واپسی کو 'رابطوں کی بنیاد پر' قرار دیا گیا تھا۔ تو ہم سلمان بٹ سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کی پوزیشن 5 سال پابندی کی سزا پوری کرکے قومی ٹیم میں واپس آنے والے محمد عامر سے بہت مختلف تھی۔ یہی معاملہ محمد آصف کا بھی تھا اور اسی لیے ان کو بھی دوبارہ کبھی قومی ٹیم کے لیے طلب نہیں کیا گیا۔ محمد عامر کی قومی ٹیم میں واپسی صرف اس لیے ہوئی کہ انہوں نے بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں گواہ بننے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا، جبکہ ان کے مقابلے میں سلمان بٹ اور آصف اپنے غلط کاموں اور قصور وار ہونے سے انکار کرتے رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عامر کے برعکس، جب اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے سراٹھایا تو لارڈز میں سلمان بٹ قومی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔ وہ 2003 سے انٹرنیشنل کرکٹ میں قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ عامر نے انٹرنیشنل کرکٹ میں 2009ء میں قدم رکھا تھا۔ آصف کے برعکس بائیں ہاتھ کے نوجوان فاسٹ باؤلر نے لارڈز اسکینڈل سے قبل کسی بھی قسم کی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔
کسی شخص کو ایمانداری اور عزت کمانے میں برسوں لگ جاتے ہیں، وہیں ایک لمحے کی غلطی سب کچھ خاک میں ملادیتی ہے اور سلمان بٹ صاحب آپ کا وہ لمحہ 10سال قبل آچکا ہے۔ اس لیے مہربانی ہوگی اگر آپ پاکستانی کرکٹ سے متعلق ایمانداری کی بات نہ کریں۔ 2010ء میں آپ کا بے ایمانی کا ایک ہی عمل آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نااہل کرچکا ہے۔
یہ آرٹیکل 14اپریل 2020 بروز منگل ڈان اخبار میں شائع ہوا تھا۔