دنیا کو درپیش کورونا سے بھی خطرناک چیلنجز


یہ جو بحران ہوتے ہیں، یہ کسی نہ کسی موقعے کو جنم ضرور دیتے ہیں اور کورونا وائرس کی عالمی وبا جیسے بے مثل بحران اتنے ہی بے نظیر مواقع کو جنم دیتے ہیں۔
دنیا کے فاشسٹوں، آمروں اور فاشسٹ بننے کے خواہاں آمروں کو یہ بحران اپنے معمول کے کام کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ اس میں تیزی لانے کا موقع فراہم کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ دنیا بحران میں الجھی ہوئی ہے اس لیے وہ جو بھی کریں، ان کے کیے پر ذرا سا بھی ردِعمل نہیں آئے گا۔ بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ وائرس آمرانہ سوچ و فکر کو تیزی سے پنپنے میں مدد کر رہا ہے۔
عوامی جذبات کا سہارا لینے والے ہنگری کے رہنما وکٹر اوبان کی مثال ہی لیجیے جنہوں نے بڑے بے رحمانہ انداز سے طاقت کو ہتھیانے کی خاطر وائرس بلکہ اس کے خوف کو ہتھیار بناتے ہوئے اس موقعے کو ہنگری کے بچے کھچے جمہوری چہرے کو بھی منسوخ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
جس ایوان میں وہ دو تہائی اکثریت رکھتے ہیں اسی کے سامنے کھڑے ہوکر انہوں نے ہنگری کو کورونا وائرس سے بچانے کے نام پر ایک ایسے حکم نامے کے تحت خود کو لامحدود اختیارات سے نواز دیا جس میں کہیں بھی تاریخ تنسیخ یا نگرانی کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
فلپائن کا بھی یہی حال ہے جہاں آئین کو ردی کا ٹکڑا پکارنے والے (یہ الفاظ کچھ جانے پہچانے سے لگتے ہیں نا؟) روڈریگو دوتیرتے کو اپنی مرضی کی حکمرانی کرنے سے متعلق ہنگامی اختیارات سے نواز دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کا جب کسی نے نام تک نہیں سنا تھا اس وقت سے اپنے نقادوں کو جیل میں ڈالنے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے والے دوتیرتے ان بے پناہ اختیارات کو کس طرح استعمال کریں گے یہ تصور کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں۔
لیکن معاملہ یہاں آکر اٹک جاتا ہے کہ آمرانہ سوچ و فکر بحران سے نمٹنے کے لیے مفید بھی ثابت ہوتی نظر آتی ہے جیسا کہ ہم نے چین میں دیکھا جہاں وائرس پر قابو پانے کے لیے شہروں کو بند کیا گیا اور شہریوں کی زندگی اور ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی نگرانی میں مزید سختیاں کی گئیں۔ اب اگر وقت اس کا تقاضا کرتا ہے تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟
ضرار کھوڑو ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ڈان نیوز ٹی وی پر پروگرام 'ذرا ہٹ کے' کے میزبان بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ZarrarKhuhro@