اس تحقیق کے دوران کورونا وائرس کے 214 سنگین کیسسز کو دیکھا گیا جن کا علاج وبا کے آغاز میں چین کے شہر ووہان میں ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے 36 فیصد سے زائد یا ہر 3 میں سے ایک مریض میں دماغی مسائل کی علامات کو دریافت کیا۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا تھا کہ کئی بار یہ علامات کووڈ 19 کی روایتی علامات جیسے بخار، کھانسی وغیرہ کے بغیر ہی ظاہر ہوئیں۔
ووہان کے یونین ہاسپٹل کی اس تحقیق میں شامل ڈاکٹر بو ہو کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز میں طبی ماہرین کو دماغی علامات کو کورونا وائرس کی ممکنہ نشانیاں سمجھنا چاہیے تاکہ تشخیص میں تاخیر نہ ہوسکے یا غلط تشخیص نہ ہوسکے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیورولوجی میں شائع ہوئے۔
یہ شبہ کے نیا کورونا وائرس دماغ اور مرکزی اعصابی نظام میں مداخلت اور متاثر کرتا ہے، نیا نہیں۔
حالیہ ہفتوں میں متعدد رپورٹس میں اس بیماری کی ایک اہم علامت کی نشاندہی کی گئی ہے جو سونگھنے کی حس سے محرومی ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ وائرس اعصابی نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں تحقیقی ٹیم نے ووہان کے 3 ہسپتالوں میں 200 زائد مریضوں کے علاج کے نتائج کا جائزہ لیا۔
ان تمام مریضوں میں مرض کی شدت بہت زیادہ تھی اور ان کا علاج 16 جنوری سے 19 فروری کے دوران ہوا تھا اور ان کی اوسط عمر 53 سال تھی۔
ان افراد کے دماغی یا مرکزی اعصابی نظام کے متاثر ہونے کی علامات پر توجہ دینے سے تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ یہ مسائل اس وقت زیادہ عام ہوتے ہیں جب بیماری کی شدت بڑھتی ہے، جبکہ کچھ کیسز میں کووڈ 19 کی روایتی علامات نظر نہیں آئیں۔
کچھ کیسز میں یہ دماغی یا اعصای مسائل جان لیوا ثابت ہوا، کم از کم ایسے 6 کیسز ایسے تھے جن میں فالج یا برین ہیمرج کا مشاہدہ ہوا۔