لندن، ماضی میں وبا کے دن کیسے تھے؟
انگریزی شاعری میں منفرد مقام پانے والے ولیم ورڈز ورتھ نے 1802ء میں جب لندن کے عین وسط میں موجود 'ویسٹ منسٹر' پُل پر کھڑے ہوکر شہر میں طلوعِ صبح کے دلکش منظر کی تصویر اپنی شہرہ آفاق نظم 'کمپوز اپون ویسٹ منسٹر برج' یا ویسٹ منسٹر پل سے تحریر میں الفاظ کے ذریعے کھنیچی، تو شاید اس دور میں لندن کی صبح ایسی ہی رہی ہوگی، خاموش، اُجلی اور پُرسکون۔ نہ پُل پر ٹریفک کی چیں پاں نہ ہی صبح صبح اردگرد موجود دفاتر کی جانب دوڑتے '9 سے 5' کے غلام۔
شاعر کے اپنے الفاظ میں انہوں نے لندن کی عمارتوں کے عقب سے اُبھرتے سورج کا اطمینان بخش نظارہ اور فرحت پہنچانے والی کرنوں کا جو لطف اس صبح یہاں اٹھایا، ایسا پُرسکون منظر اس سے قبل کہیں بھی مشاہدے میں نہیں آیا تھا۔
ولیم ورڈز ورتھ جیسے رومانوی اور قدرتی مناظر سے جنون کی حد تک محبت کرنے والے شاعر کے قلم سے بظاہر ایک کرخت، اداس، مشینی، مصروف اور کسی حد تک سیاسی مزاج رکھنے والے شہر کی تعریف، گو حیران ضرور کرتی ہے اور شاید نقادوں نے اس بارے کچھ لکھا بھی ہو لیکن لندن ہے ہی ایسی جگہ کہ اس کے سحر میں مبتلا ہوا جائے۔
پھر جس اطمینان بخش ماحول کا نقشہ ورڈز ورتھ نے اپنے سحر انگیز الفاظ سے کھینچا ہے وہ واقعی غیر معمولی منظر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ ہی پُل کے ایک کونے میں کھڑے ہوکر شہر کے بیچوں بیچ گزرتے پُرسکون دریائے تھیمز اور اس کے کنارے پر موجود تاحدِ نگاہ عمارتوں کو جی بھر کر دیکھے اور اس کے اردگرد کسی بشر کا سایہ تک نہ ہو۔
بھیڑ اور رش کے بغیر دی ٹاور آف لندن، سینٹ پال کیتھڈرل اور پارلیمنٹ ہاؤس کی تاریخی عمارتوں کے نظارے کا کچھ عرصہ قبل تک تو شاید صرف آنکھیں بند کرکے ہی تصور کیا جاسکتا تھا۔ مصروف ترین زندگی کے عادی لندن والوں اور سورج کی کرنوں میں مسلسل کئی دہائیوں سے روزانہ یہ مقابلہ چلا آرہا تھا کہ دن کے آغاز کے ساتھ ہی زمین پر پہلا قدم کس کا پڑتا ہے، اور یقیناً جیت لندن کے شہریوں ہی کے قدم چومنے کی عادی رہی ہے۔
لیکن بُرا ہو کورونا اور اس سے پھوٹنے والے خوف کا کہ اب لندن کے باسی گھروں میں یوں دبک کر بیٹھے ہیں کہ سڑکیں، بازار اور تاریخی عمارتیں جہاں حقیقتاً تِل دھرنے کو بھی جگہ میسر نہیں ہوا کرتی تھی اب وہاں صرف خاموشی کا بسیرا ہے۔
وہ ٹرین اسٹیشن اور بس اسٹینڈ جہاں لمبی قطاریں لگا کرتی تھیں، اب مسلسل کسی بھولے بھٹکے مسافر کی راہ تکتے نظر آتے ہیں۔ علی الصبح تو بہت دُور کی بات، اب تو دن چڑھنے کے کئی گھنٹے بعد بھی سورج کی کرنیں لندن کی بُلند و بالا عمارتوں اور خالی سڑکوں پر رقص کرتی رہتی ہیں جبکہ لندن والوں کی اکثریت ان سے آنکھیں چُراتی ہی محسوس ہورہی ہے۔
سو اگر آپ خوش قسمتی سے ویسٹ منسٹر کے علاقے کے آس پاس رہائش پذیر ہیں تو پھر ہمت پکڑیے اور صبح سویرے انسانوں کے بغیر لندن کے منفرد نظارے سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کیجیے، اور ہاں اس خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے ورڈز ورتھ کی صرف 14 سطری شاہکار نظم کو ساتھ لے جانا مت بھولیے گا۔
کورونا کے ڈر کی وجہ سے شہر میں موجود یہ خاموشی، تنہائی، خوف کی فضا اور غیر یقینی صورتحال چاہے اس وقت یہاں موجود رہائشیوں کے لیے نئی بات ہو لیکن لندن کے قدیم محلوں میں موجود پُرانی، بوسیدہ عمارتوں اور پرانے شہر کے مضافات جو اب لندن کا باقاعدہ حصہ ہیں، وہاں موجود متروک مکانات کے در و دیوار کے لیے یہ سب بالکل بھی نیا نہیں۔
لندن اس سے قبل بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا کرچکا ہے۔ خاص طور پر بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں، لندن ان سے ناآشنا نہیں۔
1665ء اور 1666ء میں طاعون یا پلیگ کی وبا نے انگلستان، خاص کر لندن کو بُری طرح جکڑ لیا تھا۔ بعض اندازوں کے مطابق اس وبا کے دوران شہر کی کم از کم 15 فیصد آبادی لقمہ اجل بن گئی تھی یعنی تقریباً ایک لاکھ افراد سے بھی زیادہ افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
1348ء میں طاعون کے پہلے حملے جسے آج بھی 'سیاہ موت' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کے بعد سے لندن میں طاعون کے ذریعے ہونے والی یہ سب سے بڑی ہولناکی تھی۔ چوہوں کے ذریعے پھیلنے والی اس وبا کی شدت اور اس سے ہونے والی اموات کے خوف سے لوگ، خاص طور پر متمول طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شہر چھوڑ کر جانے لگے۔ یہاں تک کے اس وقت کے بادشاہ چارلس دوم کو بھی اپنے حواریوں سمیت شہر چھوڑ کر پہلے ہمٹن کورٹ اور پھر آکسفورڈ کا رُخ کرنا پڑا۔ بالکل ایسے ہی جیسے موجودہ حالات میں کورونا کے خدشے کے پیش نظر ملکہ الزبتھ 'سماجی دُوری' اختیار کرتے ہوئے لندن کے بکنگھم پیلس کو چھوڑ کر ونڈسر کیسل میں منتقل ہوگئی ہیں۔
1665ء میں وبا کی شدت کی وجہ سے برطانوی پارلیمنٹ بھی کچھ عرصہ معطل رہی اور پھر پارلیمنٹ اور عدلیہ کو کچھ عرصے کے لیے لندن سے آکسفورڈ منتقل کرنا پڑا اور ان کی کارروائیاں وہیں منعقد ہوتی رہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں، شہر میں تیزی سے پھیلنے والی وبا کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت شہر کے مختلف علاقوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے تھے اور کچرے کی بہتات تھی، جس کی وجہ سے لندن کے بالخصوص وہ علاقے جہاں کم آمدنی والے افراد رہائش پذیر تھے، انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
رئیس اور امراء البتہ دیگر شہروں کا رخ کرنے میں کامیاب رہے لیکن حکومت کی جانب سے اس بات کا سختی سے خیال رکھا گیا کہ طاعون کی وبا میں مبتلا کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر نقل مکانی نہ کرسکے۔
سرکاری ہرکارے ان گھروں پر خصوصی پہرہ دیتے تھے جہاں طاعون یا پلیگ زدہ کسی شخص کے موجود ہونے کی اطلاع ملتی تھی اور انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت بالکل نہیں تھی۔ البتہ اس بات کا خیال سرکاری طور پر رکھا جاتا تھا کہ ایسے خاندانوں کو خوراک کی فراہمی متاثر نہ ہو۔
وبا کا پھیلاؤ روکنے کی غرض سے اور اس خیال کے زور پکڑنے کے ساتھ کہ پلیگ کی یہ وبا متاثرہ شخص کے ذریعے دیگر لوگوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے لوگوں نے ازخود ایک دوسرے سے ملنا جلنا کم کردیا جیسا کہ آج کل خودساختہ تنہائی اور فاصلے کی صورت میں دیکھنے میں آرہا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کی کونسل نے ایک حکم نامے کے ذریعے انگلینڈ سے ملنے والی سرحد بند کردی اور تجارتی روابط منقطع کردیے جس کی وجہ سے انگلینڈ میں بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ لوگوں کی قابل ذکر تعداد کو خوراک کے حصول کے لیے بھیک بھی مانگنا پڑی اور چوریاں بھی کرنا پڑیں۔
اس دوران عوام میں شعور پھیلانے اور وبا کی روک تھام کے لیے بادشاہ کی جانب سے حکم نامہ بھی جاری ہوا اور حکام کے ذریعے اس پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت جو احکامات دیے گئے ان میں سے بیشتر موجودہ کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر سے مماثلت رکھتے ہیں جن پر آج کل پوری دنیا میں زور دیا جارہا ہے۔
برطانوی نیشنل آرکائیو میں موجود دستاویزات کے مطابق 1666ء میں جاری کیے گئے اس حکم نامے کی رُو سے
- کسی بھی مسافر کو بستی میں داخل ہونے کے لیے ایک ہیلتھ سرٹیفیکیٹ پیش کرنا ہوگا تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ شخص پلیگ سے متاثر تو نہیں۔
- ایسے مکانات جہاں طاعون زدہ شخص رہائش پذیر رہا ہو، وہاں سے فرنیچر منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور تمام مکانات کی صفائی کا خصوصی خیال رکھا جائے گا۔
- عوامی اجتماعات خاص کر جنازے کے موقع پر زیادہ لوگوں کو اکٹھا ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
- متاثرہ علاقوں میں پالتو جانور خاص کر بلی، کتے اور کبوتروں کو ایک گھر سے دوسرے گھر نہیں لے جایا جائے گا۔
- ہر شہر اور قصبہ سنگین وبائی پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے خود کو پہلے سے تیار رکھے گا اور شہر سے دُور ایسی جگہ کا بندوبست یقینی بنائے گا جہاں بڑے پیمانے پر متاثرہ افراد کو رکھا جاسکے۔
- جس گھر میں سے کوئی شخص طاعون میں مبتلا ہوجائے، اسے دوسری جگہ منتقل کرکے گھر کے بقیہ افراد کو 40 دن تک گھر میں رکنے کا کہا جائے گا اور انہیں ضروری اشیا کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی، ساتھ ہی ساتھ اس گھر کے دروازے پر سرخ رنگ کا کراس بنا کر جلی حروف میں 'خدا ہم پر رحم کرے' تحریر کیا جائے گا۔
تقریباً 15 نکات پر مشتمل اس ہدایت نامے کا آخری حصہ بھی دلچسپ ہے، جس میں بادشاہ نے عوام سے درخواست کی کہ وہ صرف ماہانہ روزوں ہی کا اہتمام نہ کریں بلکہ ہفتہ وار منعقد ہونے والی عبادات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لیں اور ان مواقع پر پلیگ سے متاثرہ افراد کی مدد اور ضروریات پوری کرنے کے لیے امداد بھی دیں تاکہ خدا کی جانب سے آنے والی اس سختی میں کمی کی امید کی جاسکے۔
یہ حصہ، 17ویں صدی کے انگلستان میں مدد الٰہی سے متعلق حقائق سامنے لے کر آتا ہے۔ آج کے برطانیہ میں اگرچہ کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس میں سے کئی ایسے ہی ہیں جیسے ماضی میں بھی کیے جاچکے ہیں لیکن خدائی مدد کا عنصر غائب محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ چرچ آف انگلینڈ کی موجودہ سربراہ اور سلطنت کی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھی کورونا کے حوالے سے جو غیر معمولی ٹیلی ویژن خطاب کیا اس میں کورونا کے خلاف اپنائی جانے والی حکمتِ عملی میں مذہبی کردار پر خاموشی نظر آتی ہے حالانکہ ماضی کا برطانیہ ایسا نہیں تھا۔
بہرحال 1665ء کے پلیگ سے جڑی ایک اور دلچسپ روایت، اسکول کی چھوٹی کلاسوں کے بچوں کی مشہور نظم 'رنگ آ رنگ آف روزز' بھی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 4 سطروں کی یہ مختصر نظم، طاعون کے دنوں ہی میں لکھی گئی اور زبان زدِ عام ہوگئی۔ اس میں بیماری کا ذکر کیے بغیر مختلف تشبیہات کے ذریعے پلیگ کی نشانیوں، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔ شاید اس سب کا مقصد یہ ہو کہ بچوں کے دل سے اس موذی بیماری کا خوف نکالا جاسکے اور وہ ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔
برطانیہ کے مشہور مصنف اور شہرہ آفاق ناول 'رابن سن کروسو' سے شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے والے ڈینئل ڈیفو نے بھی پلیگ کی اس وبا کے زمانے کو قریب سے دیکھا اور اس حوالے سے 'اے جرنل آف دی پلیگ ائیر' کے عنوان سے کتاب مرتب کی۔
اس کتاب میں تفصیل سے 1665ء کے حالات خاص کر لندن کے شب و روز پر بات کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ کون سے ایسے عوامل تھے جن کے باعث یہ مرض تیزی سے پھیلا اور پھر اس وقت کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں؟ ساتھ ہی ساتھ کتاب میں اس افراتفری اور غیر یقینی کی صورتحال کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے جو اس موذی مرض کے پھیلنے کے باعث پیدا ہوئی۔
کتاب میں ایک جگہ مصنف لکھتا ہے کہ 'یہاں یہ بات بھی اچنبھے سے خالی نہیں کہ اس وقت لندن میں رہنے والوں کے اپنے غصے ہی نے ان کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہے' اور یہ بھی کہ 'اس وبا نے لندن کے چہرے کو عجیب انداز میں بدل دیا ہے'۔
اگر یہ کتاب کچھ عرصہ پہلے اور معمول کے دنوں میں ہاتھ لگتی تو شاید بہت سی باتیں سمجھ آئے بغیر ہی سر سے گزر جاتیں اور اس طرح سے ان باتوں کو سمجھنے کا موقع ہی نہ ملتا جیسے آج کے حالات میں سمجھ آ رہی ہیں۔ یقیناً گھروں میں بیٹھے رہنے، معاشرتی سرگرمیوں کے انتہائی محدود ہونے اور پھر ایک انجان بیماری کے خوف میں مسلسل مبتلا رہنے سے اس طرح کا چڑچڑا پن ہم میں سے ہر کوئی محسوس کررہا ہے اور یہ رویہ یقیناً معاشرے کے اجتماعی چہرے کو بھی بدل رہا ہے۔
بہرحال وبا کے دنوں میں لوگوں کو مسلسل گھروں میں ٹکے رہنے کا کہنا بھلے ایک بورنگ آئیڈیا محسوس ہو، لیکن 1665ء میں کیمبرج کے ٹرینٹی کالج میں زیرِ تعلیم جواں سال طالبعلم 'آئزک نیوٹن' کے لیے یہ بالکل بھی بورنگ یا فارغ رہنے کا سبب نہیں تھا۔
طاعون کے پھیلاؤ کے خطرے کو دیکھتے ہوئے تعلیمی اداروں نے بھی 'معاشرتی دُوری' کے اصول کو اپناتے ہوئے طالبعلموں کو گھروں کو جانے اور 'ورک فرام ہوم' کا کہا۔
نیوٹن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے گھر سے ہی روزانہ کی بنیاد پر پڑھائی کا پروگرام ترتیب دیا، شاید اس دُوری اور تنہائی ہی نے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھر کر سامنے آنے میں بھی مدد دی۔
اس دوران نیوٹن نے ریاضی پر توجہ دیتے ہوئے کیلولس کے بنیادی تصورات پر کافی کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ آپٹکس کے حوالے سے بھی تحقیق کی۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اسی جگہ سیب کا وہ مشہور درخت بھی موجود تھا جس نے نیوٹن کو کششِ ثقل اور حرکت کے قوانین دریافت کرنے میں مدد دی۔
وجہ کچھ بھی ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب وبا نے برطانیہ کو لپیٹ میں لے رکھا تھا اور بڑی تعداد میں لوگ گھروں میں بند تھے، اسی موقع پر نیوٹن نے اپنے وقت کا بہترین استعمال کیا اور 1667ء میں کیمبرج واپس لوٹنے کے صرف 2 سال بعد پروفیسر کے عہدے تک بھی پہنچ گئے۔
یہ تو تھے نیوٹن، آپ یہ بتائیں کہ وبا کے دنوں میں، گھر میں مسلسل موجودگی کے دوران، محض موبائل کی اسکرین پر انگلیاں پھیرنے کے علاوہ اور کیا کررہے ہیں؟
--
لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔