دنیا

دوحہ میں امریکی جنرل کی طالبان قیادت سے ملاقات

یہ ملاقات، معاہدے پر عمل درآمد، اس کی خلاف ورزیوں، حملوں اور رات کے چھاپوں سے متعلق تھی، ترجمان طالبان

کابل: افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے سربراہ نے طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی جس میں ملک میں تشدد میں کمی لانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔

واضح رہے کہ طالبان، امریکیوں پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ واشنگٹن نے فروری میں طالبان کے ساتھ ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں اگلے موسم گرما تک امریکی اور غیر ملکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کا وعدہ کیا گیا تھ، معاہدے میں یہ شرائط بھی شامل تھیں کہ یہ انخلا اس صورت میں ہوگا جب طالبان، افغان سرکاری عہدیداروں سے بات چیت شروع کریں گے اور دیگر شرائط پر عمل کیا جائے گا۔

امریکی فوج کے ترجمان سونی لیگیٹ نے بتایا کہ امریکی جنرل سکاٹ ملر نے جمعہ کی رات دوحہ میں طالبان گروپ کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے طالبان قیادت سے تشدد کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ یہ اجلاس معاہدے پر عمل درآمد اور اس کی خلاف ورزیوں، خاص طور پر غیر جنگی علاقوں میں حملوں اور رات کے چھاپوں سے متعلق تھا۔

طالبان نے الزام لگایا کہ امریکی افواج نے فضائی مدد سے افغان حکومت کی مدد کی ہے جس سے شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا-طالبان معاہدہ: افغان صدر نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد کردیا

دوسری جانب امریکا نے ان الزامات کی تردید کی۔

امریکی فوج کے ایک ترجمان نے طالبان سے افغان سیکیورٹی فورسز پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ امریکی فوجی معاہدے کے مطابق ان کی مدد کو جاری رکھیں گے۔

طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 29 فروری کو معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے ہی افغان افواج پر اپنے حملے کم کردیے ہیں اور امریکی یا نیٹو افواج پر حملہ نہیں کیے۔

واضح رہے کہ طالبان کے حالیہ زیادہ ترین حملے دور دراز علاقوں میں تعینات افغان فورسز کے خلاف ہوئے ہیں۔

اس دوران افغان حکومت نے کہا کہ اس کی فضائیہ نے بدخشان صوبے میں طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کیا جس میں 27 جنگجو ہلاک ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: [امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا]2

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ امریکی اور افغان فورسز کے حملوں میں عام شہری زخمی یا ہلاک ہورہے ہیں۔

امریکی فوج کے ترجمان نے اس الزام کا جواب دینے سے انکار کیا اور کہا کہ طالبان اکثر امریکا پر یہ الزام لگاتے ہیں۔

ایک اور امریکی دفاعی عہدے دار نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ کابل پر قیدیوں کی رہائی کے تبادلے کو آگے بڑھانے کے لیے امریکا پر دباؤ ڈالنے کے لیے جھوٹے الزامات لگارہے ہیں۔

واضح رہے کہ افغان حکومت کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا ہے جبکہ افغان حکومت معاہدے میں فریق نہیں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان امن معاہدے پر دستخط کے 2 روز بعد ہی افغانستان میں بم دھماکا

مذکورہ معاہدے کے تحت طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی حامی اسیروں کو رہا کریں گے۔

طالبان نے گزشتہ ہفتے قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے افغان عہدیداروں سے ملاقات کی تھی لیکن افغاں حکومت کی جانب سے محدود قیدیوں کی رہائی کی پیش کش کے بعد ہی طالبان مذاکرات سے دستبردار ہوگئے تھے۔


یہ خبر 12 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

'بھارت نسل پرستانہ برتری کے خطرناک نظریے پر عمل پیرا ہے'

کراچی میں 5، جڑواں شہروں میں 2 ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تصدیق

پاکستان میں کورونا وائرس سے 4594 افراد متاثر، 500 سے زائد صحتیاب