درحقیقت کیسز نہ ہونے کے باوجود گرین لینڈ میں سخت اقدامات کو برقرار رکھا گیا ہے اور ملک کے سابق وزیر صحت اووی روزینگ اولس نے بتایا کہ یہ لاک ڈائون ایک سال تک برقرار رہ سکتا ہے کیونکہ گرین لینڈ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ زیادہ بیمار افراد کو سنبھال سکے۔
ان کا کہنا تھا 'نظام تنفس کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہماری صلاحیت محدود ہے، اگر نظام پر بوجھ بہت زیادہ بڑھ گیا تو بیشتر افراد ہلاک ہوجائیں گے، تو وائرس کو پھیلنے کا موقع دینے کی بجائے اس کی روک تھام اس وقت تک کرنا بہتر ہے جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہوجاتی، میرا ماننا ہے کہ ہمیں طویل عرصے تک دیگر افراد سے بہت کم تعلق رکھنا ہوگا، کم از کم مزید 12 ماہ کے لیے'۔
گرین لینڈ کے واحد بڑے ہسپتال کوئین انگریڈ ہاسپٹل کے ڈاکٹر جیرٹ مولوڈ نے کہا کہ انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ اگر ویکسین کی دستیابی سے پہلے لاک ڈائون ختم کردیا جائے گا تو کتنے افراد کو طبی امداد کی ضرورت پڑے گی۔
انہوں نے کہا 'ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ صحت کے نظام کو بوجھ سے بچایا جائے، ہمارے پاس ملک کو آئسولیٹ کرنے کے زیادہ آپشنز ہیں، اگر ہم نے درست طریقے سے کام کیا، ہم ایک اور وبا کو کنٹرول کرلیں گے اور یہ کوئی دنیا کا ختتام نہیں'۔