صحت

کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی، برطانوی سائنسدان

اہم ترین برطانوی یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کی قائد کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

ویسے تو اکثر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نئے نوول کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری میں ایک سے ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

مگر برطانیہ کی اہم ترین یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کی قیادت کرنے والی سائنسدان کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینولوجی کی پروفیسر سارہ گلبرٹ نے دی ٹائمز آف لندن کو بتایا کہ وہ '80 فیصد پراعتماد' ہیں کہ ان کی ٹیم کی تیار کردہ ویکسین کام کرے گی اور ستمبر تک تیار ہوجائے گی۔

ماہرین اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ عام طور پر ویکسینز کی تیاری کا عمل برسوں میں مکمل ہوتا ہے اور بہت زیادہ تیزی سے بھی کام کیا جائے تو بھی کورونا وائرس کے لیے ویکسین کی تیاری 12 سے 18 ماہ میں مکمل ہوسکے گی۔

مگر آکسفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ ہم مزید ڈیٹا کا جائزہ لے رہے ہیں۔

آکسفورڈ کی ٹیم دنیا بھر میں کام کرنے والے ان درجنوں ٹیموں میں سے ایک ہے جو ویکسین کی تیاری پر کام کررہی ہیں، مگر سارہ گلبرٹ کی ٹیم برطانیہ میں سب سے زیادہ پیشرفت کرچکی ہے۔

پروفیسر سارہ کا کہنا تھا کہ اس وقت جب برطانیہ لاک ڈائون کے چوتھے ہفتے سے گزر رہا ہے، ایک ویکسین سے ہی سخت اقدامات کو نرم کرنے اور معمول کی زندگی کی جانب لوٹنا ممکن ہوسکے گا۔

انہوں نے بتایا کہ انسانوں پر ویکسین کی آزمائش کا عمل اگلے 2 ہفتوں میں شروع ہورہا ہے۔

برطانوی ہیلتھ سیکرٹری میٹ ہینکوک نے اسکائی نیوز کو کہا کہ پروفیسر سارہ گلبرٹ کا بیان امید کی کرن ہے۔

ان کا کہنا تھا 'میں آکسفورڈ کے منصوبے کے بارے میں کافی کچھ جانتا ہوں، اور امید کی کرن کو دیکھنا بہت زبردست ہے خصوصاً اخبار کے پہلے صفحے پر'۔

پروفیسر سارہ نے گزشتہ مہینے کے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ ایک ویکسین 2020 کے اختتام تک تیار ہوجائے گی۔

اب اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا 'کوئی یہ وعدہ نہیں کرسکتا کہ یہ ویکسین کام کرے گی، مگر مجھے 80 فیصد اعتماد ہے کہ ہمیں کامیابی ملے گی'۔

اگر برطانوی سائنسدان ستمبر تک اس ویکسین کو تیار کرکے استعمال کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں پھر بھی ماہرین کے مطابق اس ویکسین کے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کے لیے کئی ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔

پروفیسر سارہ کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سے سرمائے کے لیے بات چیت ہورہی ہے اور حتمی نتائج سے پہلے ہی پروڈکشن بھی شروع کردی جائے گی، جس سے لوگوں کو ویکسین تک رسائی فوری مل سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو خزاں تک کامیابی ممکن ہے۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں اس بیماری کے نتیجے میں اب تک 17 لاکھ سے زائد افراد بیمار جبکہ ایک لاکھ 3 ہزار سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔

امریکا میں اس حوالے سے 2 ویکسینز کی انسانی آزمائش شروع ہوچکی ہے۔

ایک کمپنی موڈرینا تھیراپیوٹکس نے بہت تیزی سے کام کرتے ہوئے وائرس کے جینیاتی سیکونس بننے محض 42 دن بعد 16 مارچ کو ایک ویکسین کی انسانی آزمائش شروع کردی تھی۔

اسی ویکسین کو ریاست واشنگٹن کے 45 افراد میں آزمانے کا پروگرام جاری ہے، جن افراد پر مذکورہ ویکسین آزمائی جا رہی ہے ان کی عمریں 18 سے 55 سال کے درمیان ہیں اور وہ سب صحت مند ہیں۔

مذکورہ ویکسین کے ٹرائل کے حوالے سے امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹس آف ہیلتھ انفیکشز ڈیزیز کا کہنا تھا کہ کلینیکل ٹرائل کا دورانیہ کم از کم ایک سال سے 18 ماہ تک ہوسکتا ہے جس کے دوران اس کے محفوظ اور مؤثر ہونے کا تعین کیا جائے گا۔

16 اپریل کو بل اینڈ ملنڈا گیٹس کے تعاون سے امریکی کمپنی انوویو کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کی 6 اپریل سے انسانوں پر آزمائش شروع کردی گئی۔

انوویو کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کی پہلے ہی جانوروں پر کامیاب آزمائش کی جاچکی ہے اور مذکورہ ویکسین کو جانوروں پر استعمال کرنے کی اجازت بھی حاصل کی گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ انوویو کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کو (انو 4800) ڈی این اے ویکسین کا نام دیا گیا ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کو تقویت فراہم کرکے انسانی جسم میں اینٹی باڈیز کی پیداوار کو بڑھاتی ہے۔

کمپنی کے مطابق ان کی ویکسین کو بھی امریکا کی 2 مختلف جگہوں پر 40 رضاکاروں پر آزمایا جائے گا، ابتدائی طور پر رضاکاروں کو ہر 4 ہفتے ڈوز دیا جائے گا اور پھر رضاکاروں کا جائزہ لے کر ویکسین کے دوسرے مرحلے کو شروع کیا جائے گا۔

تاہم یہاں یہ بات واضح رہے کہ اگر اس ویکسین کا ٹرائل بھی کامیاب جاتا ہے تو بھی اس ویکسین کی عام دستیابی میں 12 سے 18 ماہ کا وقت لگے گا اور اس سے پہلے دنیا میں کورونا سے بچاؤ کی کوئی بھی ویکسین دستیاب نہیں ہوگی۔

تو اس کو دیکھتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے 5 یا 6 ماہ کے اندر ویکسین تیار کرکے عوام تک پہنچانا بظاہر ناممکن لگتا ہے مگر وبا کی تیزی کو دیکھتے ہوئے سائنسدانوں کی جانب سے معمول سے ہٹ کر زیادہ تیزرفتاری سے کام کیا جارہا ہے اور جلد تیاری کو ممکن بھی بنایا جاسکتا ہے۔

کووڈ 19 کے علاج کے لیے تجرباتی دوا کے نتائج حوصلہ افزا قرار

کووڈ 19 سے خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اموات کی شرح زیادہ

کورونا وائرس توقعات سے دُگنا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، تحقیق